بلوچستان کو انصاف دو
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مسلم لیگ ن کے رہنما مریم نواز کی ایک ٹویٹ کی باز گشت تھی، مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پر 2019 کے ورلڈکپ کے میچ کے دوران کی ایک کلپ شئیر کی تھی، جس میں ایک تشہیری مہم کے تحت بلوچستان میں ہونے والی ناانصافیوں سے دنیا کو آگاہ کرنے اور انکی توجہ کو بلوچستان کے ابتر صورتحال کی طرف مبذول کرنے کے لیے بینرز پر ” بلوچستان کو انصاف دو ” کے نعرے درج تھے۔ اس ویڈیو کو شئیر کرتے ہوۓ محترمہ مریم نواز نے اسی بینر پر لکھے ٹائٹل “بلوچستان کو انصاف دو” کو اس ویڈیو کے عنوان میں دیا تھا۔ انکی اس ٹویٹ سے تو پاکستان میں جیسے قیامت برپا ہو گیا، اور مریم صاحبہ شدید تنقید کی زد میں آگئی،اور پھر مریم صاحبہ کو اپنی اس ٹویٹ کو شئیر کرنے کے کچھ لمحے بعد ہی واپس ڈیلیٹ کرنا پڑا۔
ویسے بقول مسلم لیگ ن والوں کے نواز شریف صاحب شیر ہے، اور انکی بیٹی مریم صاحبہ شیرنی ہے، شیرنی صاحبہ بہت ہی دلیر خاتون ہے، وہ کسی سے نہیں ڈرتی، انھوں نے پنجاب کے سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ مریم صاحبہ، پاکستان کی سیاست میں اسٹیپشملنٹ کی مداخلت اور سیاست میں کرنلز اور جرنلز کے ملوث ہونے پر بڑی بے باکی سے اپنے راۓ کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ وہ بڑی جرات کے ساتھ پاکستان کے سیاست میں جرنلز کے کردار پر تنقید کرتی ہے۔ وہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح بالکل بھی نہیں ڈرتی ہے، وہ عدالتوں میں جعلی مقدموں کا مقابلہ کرتے ہوۓ بھی کبھی خوفزدہ نہیں ہوئی، انھوں نے سیاسی کارکن کی حیثیت سے جیل کی صعوبتوں کا بھی بڑی خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ یہ شیرنی جو اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسز میں برملا پاکستان کے اسٹیپشملنٹ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید اور آرمی کے سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ پر تنقید کرتے ہوۓ خوفزدہ نہیں ہوتی، لیکن وہ بلوچستان پر اپنے ایک لکھے ہوۓ ٹویٹ پر کیے جانے والے تنقید سے اتنی خوفزدہ کیوں ہو گئی کہ انھیں اپنا وہ ٹویٹ اکاؤنٹ سے ڈیلیٹ ہی کرنا پڑی۔
مریم صاحبہ پر غداری اور انڈین ایجنڈے پر کام کرنے کے الزامات پہلے بھی بہت بار لگاۓ گئے ہیں، اور ابھی بھی لگاۓ جارہے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اپنی کہی ہوئی بات سے نہیں ہٹی، تو اب اس بار جب انھوں نے بلوچستان کے لیے انصاف مانگا، اور ان پر غداری کی صدا پھر بلند ہوئی، تو اس بار وہ کیوں ڈر گئی؟ کیوں اپنی بات سے پیچھے ہٹ کر انھوں نے اپنے ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔
بات تو بہت ہی واضح ہے، کہ مریم صاحبہ نے یہ ٹویٹ بلوچستان کی ہمدردی میں نہیں بلکہ اپنے ان حریفوں پر وار کرنے اور ان کو جلنے کے لیے دیا تھا، وہ بڑی زبردست سیاست دان ہے، انھیں اچھے سے پتہ ہے کہ وہ اپنے حریفوں کو کن حربوں سے زیر کر سکتی ہے۔ پہلے میرا بھی یہی گمان تھا ، کہ شاید پنچاب میں یہ پہلی سیاست دان ہے، جو بہت ہی بہادر اور نڈر ہے، لیکن مریم صاحبہ نے اپنی ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرکے میری اس خوش فہمی کو ختم کردیا۔
بلوچوں کو تو بخوبی اندازہ ہے، مریم صاحبہ انکی ہمدرد نہیں، بلکہ بلوچستان کے نام پر صرف اپنی سیاست کر رہی تھی۔ اب جبکہ آپ بلوچستان کے نام پر اپنی سیاست کر ہی رہی تھی ، اپنی حریفوں پر بلوچستان کے نام پر وار کر ہی رہی تھی، تو اس پر ڈٹ بھی جاتی۔شاید مریم صاحبہ بلوچستان اور بلوچوں کی تاریخ سے نابلد معلوم ہوتی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین کے وارث اپنی بہادری اور اپنی قول پر قائم رہنے والے لوگ ہیں، انکی زمین کا نام لیا تھا، تو انکا پاس بھی رکھ لیتی، تنقید سے ڈر کر اپنی ٹوئٹ کو ڈیلیٹ نہ کرتی۔
مریم صاحبہ کی اس ایک ٹویٹ سے تو بلوچستان کو انصاف نہیں ملتی، لیکن انکی یہ ٹویٹ اور اسکو ڈیلیٹ کرنے سے انکے فالوورز اور شوشل میڈیا میں بیٹھے لوگوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ بلوچستان کا نام لینا بھی اب پاکستان میں جرم بن گیا ہے۔ مریم نواز کی ٹویٹ بلوچستان کو کیا انصاف دے سکتی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں دے سکتی۔
بلوچستان کے حالات 75 سال سے جیسے چل رہے ہیں، ویسے ہی رہنے تھے، بیروزگاری، غربت، ناخواندگی، پسماندگی کچھ بھی نہ بدلنے والا تھا۔پھر اتنا ہنگامہ کیوں؟ یہ ڈر کیوں؟ کس بات کا خوف پاکستانیوں کو کھایا جا رہا ہے؟
پاکستان کا ہر سیاست دان اپنی سیاست کو بلوچستان کے نام پر چمکانے کی کوشش کرتا ہے، یہی مریم صاحبہ نے بھی کیا، میرے لیے تو اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ بلوچستان کو انصاف دلانے کے ایسے دعوےدار پاکستان کی سیاست میں روز آتے ہیں، اور ایسی باتوں سے بلوچستان کو انصاف دلانے والے جھوٹے سیاست دان بھی بہت سے دیکھےہیں۔ سوال تو یہ کہ کیا بلوچستان والے پاکستان سے انصاف اور مساوات مانگ رہے ہیں، یا انصاف اور مساوات سے بڑھ کر کچھ اور چاہتے ہے۔
ماضی قریب میں گودار میں چائینز کے قافلے پر ایک خوبرو نوجوان سربلند بلوچ نے جو خودکش حملہ کیاتھا، کیا وہ صرف اس لیے کیا تھا، کہ بلوچوں کو پاکستان کے آیئنی حقوق میں برابری کا حصہ دیا جاۓ؟ کیا عبدالنبی بنگلزئی جوایک پیر مرد بزرگ ہے، جوانی سے لے کر اب تک پہاڑوں میں مسلح جدوجہد کررہے ہیں، انکے علاوہ اور کئی بلوچ نوجوان جو اس وقت مسلح جدوجہد کا حصہ ہے، وہ مسلح جدوجہد صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ بلوچستان کو یہ انصاف دو کہ ریاست پاکستان اسکو اسکے آئینی حقوق اور برابری کا حصہ دے۔
یہ تو اب طے شدہ بات ہے کہ بلوچستان کو انصاف دینا پاکستانی سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں، بلوچوں کو انصاف دینے سے پاکستان کے سیاستدان قاصر ہیں۔ انکے کھوکھلے نعرے، کہ ہم بلوچستان کی احساس محرومی ختم کریں گے، ہم بلوچ بھائیوں سے معافی مانگتے ہیں، یہ سب خالی نعروں کے سواکچھ نہیں ہیں، تو اب بلوچ عوام خود ہی فیصلہ کریں کہ انھیں پاکستان سے انصاف کسں صورت میں چاہیے؟ اور کس صورت میں انھیں انصاف مل سکتی ہے؟
اپنے ان سوالوں کے جواب اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتی ہوں کہ بلوچستان، پاکستان سے کیا انصاف چاہتا ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں