نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی اجلاس زیر صدارت مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ بمقام شال منعقد ہوا، جس میں سیکرٹری رپورٹ، سیاسی صورتحال، تنقیدی نشست،تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل سمیت مختلف ایجنڈے زیر بحث رہے۔
اجلاس سے مرکزی رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پارٹی ہمیشہ ریاست کے متبادل کے طور پر کام کرتی ہے، سیاسی جماعت ایسی ٹول ہے جو پاور سسٹم میں، نو آبادیاتی سماج میں اپنے لوگوں کی مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں پارٹیاں اپنے عوام کی نمائندگی کی بجائے این جی اوز نما ادارے بن چکے ہیں جس سے عام عوام کو فائدہ نہیں مل رہا ہے بلکہ پارٹیاں کچھ طاقت ور لوگوں کے گرد گھومتے ہیں۔اسی لئے ان تمام تر صورتحال میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ایک سیاسی پارٹی کی تمام لوازمات کو مد نظر رکھ کر اپنے محکوم بلوچ عوام کی بھر پور نمائندگی کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی نشوونما، ذاتی مفادات سے نکل کر قومی مفادات، بلوچ شناخت و بقا کی جد و جہد کو پروان چڑھائے۔کیونکہ بلوچ قوم اس وقت اپنی بقا کی جدوجہد میں بے شمار رکاٹوں کے باوجود بر سر پیکار ہے۔ ظلم جبر کے سائے تلے بلوچ کو انسانی تکمیل سے روکا جا رہا ہے انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کر کے بلوچ کو اپنی سیاسی و انفرادی آزادی سے دور کیا جا رہا ہے تا کہ بلوچوں کو اس کے آبائی سر زمین سے بے دخل کرکے اسکی شناخت اور بقا کو ختم کیا جا سکے۔
رہنماؤں نے عالمی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا اور افغان طالبان کا افغانستان پر قبضہ، ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتوں کی نرم گوشہ، افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد عالمی قوتوں سمیت پاکستان کا طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھانا اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اس بات کی غماز ہے کہ سینٹرل ایشیاء خصوصا افغانستان اور بلوچستان سمیت جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں ایک دفعہ پھر مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اس بات کے امکانات ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس خطے میں ایک دفعہ پھر اپنی پراکسی وار کے ذریعے بلوچ سمیت محکوم اقوام کے خلاف نئی صف بندی کر رہی ہے۔لہذا اس خطے میں بسے محکوم اقوام کو آنے والے حالات کا ادراک کرکے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے نئے چیلنجز کا سامنا کریں۔
مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ اس وقت ریاست پاکستان کی جانب سے وفاقیت کے نام پر خطے میں بسنے والے اقوام کی شناخت اور تاریخ پر حملہ آور ہے جس کی اہم مثال اس خطے میں بسنے والے تمام اقوام کیلئے ایک ہی نظام تعلیم اور یکساں نصاب متعارف کروانا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس خطے میں بسنے والے تمام اقوام اپنی علیحدہ شناخت، ثقافت، تاریخ، اقدار اور ویلیوز رکھتے ہیں اگر اس طرح کے فیصلے لیے گئے تو ہم ان فیصلوں کو محکوم اقوام کی تاریخ، شناخت اور ثقافت پر حملہ تصور کرتے ہیں جس کی ہم قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔اپنی قوم کی بقا، شناخت، ثقافت اور تاریخ کو بچانے کیلئے ہر سیاسی پلیٹ فارم پر جدوجہد کرتے رہیں گے۔
دوسری جانب مہنگائی کی ایک خطرناک لہر آچکی ہے، غریب نان شبینہ کا محتاج ہے، کسی بھی شخص کیلئے پورے گھر کو چلانا ناممکن ہوگیا ہے، لیکن اقتدار پر براجمان حکمران اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والے سیاسی پارٹیاں اپنی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں، ریاست پاکستان چند خاندان اور چند طاقتور لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس وقت ریاست نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتا، اس وقت ریاست پاکستان آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سامراجی قوتوں کے ہاتھوں کے یرغمال ہے۔کیونکہ ریاست پاکستان کے اندر رہنے والے عوام مہنگائی کے چکی میں پھس رہے ہیں لیکن عوام کی داد رسی کیلئے کوئی بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بد امنی، ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی عروج پر ہے، آئے دن بلوچ خصوصاً بلوچ نوجوان اغواء ہو رہے ہیں، ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ بلوچستان میں لوگوں اپنے حقوق کیلئے احتجاج نہ کر رہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں بلوچستان کے سب سے بڑا اعلی تعلیمی ادارہ بلوچستان یونیورسٹی کے اندر سے دو بلوچ نوجوان سہیل بلوچ، فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے، کیونکہ بلوچستان یونیورسٹی جیسا ادارہ فل پروف سیکیورٹی کے لپیٹ میں ہونے کے باوجود بلوچ طلبہ جبری طور پر لاپتہ کیے جا رہے ہیں۔ پہ در پہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور حلقوں کو چاہیے کہ وہ ہوش کا ناخن لے کر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کریں،کیونکہ اس کے نتائج سیاسی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بنیاد پر بہت خطرناک ہونگے۔
اجلاس سے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے اندر اس وقت سی ٹی ڈی مطلق العنان بن چکا ہے، جب چاہے، جہاں چاہے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر بلوچ نوجوانوں خصوصا لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کیا جا رہا ہے، ہم عدالت عالیہ سمیت عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں اور ذمہ داروں کے خلاف نوٹس لے کر ان کے خلاف قانونی کاروائی کریں۔
رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں اس وقت اعلی تعلیمی اداروں کو اٹھارویں ترمیم کے باوجود تمام اختیارات گورنر کے پاس ہیں جو کہ اٹھارویں ترمیم پر قد غن ہے لہذا وزیر اعلی ہاؤس کو چاہیے کہ وہ اٹھارویں ترمیم پر عمل در آمد کرکے گورنر سے اختیارات واپس لیے جائیں۔یونیورسٹیوں کے اندر سیاست ختم کرنے اور اعلی تعلیمی اداروں کو گورنر ہاوس سے کنٹرول کرنے کیلئے تمام یونیورسٹیوں کیلئے ایک ایکٹ لایا جا رہا ہے، جس میں اعلی تعلیمی اداروں کے اندر منتخب باڈیز کو ختم کرکے اعلی عہدوں پر بغیر کسی اشتہار، انٹرویوز اور ٹیسٹ کے گورنر ہاؤس سے بیک قلم جنبش اعلی عہدوں پر لوگوں کو تعینات کیا جا رہا ہے جو کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے حکم نامہ اور اعلی تعلیمی اداروں کے موجودہ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے لہذا گورنر ہاؤس کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیمی اداروں کے حوالے سے غیر قانونی، غیر آئینی فیصلہ نہ کرے۔اس وقت گورنر ہاؤس سے مختلف یونیورسٹیوں میں اعلی عہدوں پر جتنے بھی لوگ تعینات کیے گئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کے تمام فیصلے غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں لہذا ہم اپنے پارٹی کی جانب سے حالیہ ہونے فیصلوں کے خلاف تمام آئینی اور جمہوری فورمز پر آواز اٹھائیں گے۔
اجلاس کے آخری ایجنڈے میں بلوچ قوم، ان کو درپیش مشکلات کو مد نظر رکھ کر متعدد فیصلے لیے گئے۔ جس میں آنے والے 10 دسمبر کو عالمی انسانی حقوق کے دن کے مناسبت سے ایک مرکزی پروگرام منعقد کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔