اوپن سورس انٹیلیجنس ۔ بیورغ بلوچ

386

اوپن سورس انٹیلیجنس

‏تحریر: بیورغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ


‏عام یا عوامی طور پر دستیاب مواد/معطیات کے انبار  کو بروقت پرکھنے ، کھنگالنے، جانچنے اور تجزیہ کرنے کے بعد مطلوبہ اور اہمیت کے حامل معلومات کو نکالنے کو اوپن سورس انٹیلیجنس کہا جاتا ہے۔

‏اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے جا استعمال ہر کسی کی روزمرہ کا معمول ہے اور ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنی تصاویر ، وڈیوز، تحاریر انٹرنیٹ پر ڈالتے رہتے ہیں اور انٹرنیت مواد/ڈیٹا کا سب سے بڑا ماخذ ہے جسکے تجزیے سے باآسانی کسی بھی مطلوبہ شخص/جگہ/کمپنی/گروہ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات جمع کی جاسکتی ہے۔

‏بلوچ قومی تحریک سے جڑے بیش بہا افراد بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اور بنا سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر وڈیوز اور تصاویر ڈال دیتے ہیں بنا یہ جانے کہ جوں جوں وہ ڈیٹا ڈالتے جاتے ہیں ان سے جڑے کئی معلومات دشمن اخذ کرکے ان تک یا انکے ٹھکانوں تک پہنچ جاتی ہیں جو کہ نقصان دہ ہے۔

‏اوپن سورس انٹیلیجنس کو سمجھنا کسی بھی بلوچ جہدکار کے لیئے بہت ضروری ہے تاکہ وہ کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرے جو دشمن کو ان تک پہنچا دے اور قومی تحریک کو قیمتی ساتھیوں کا نقصان اٹھانا پڑے۔ اس لیئے میری کوشش ہے کہ اس پر کچھ روشنی ڈال سکوں ۔

‏میٹا ڈیٹا سرچ/ Metadeta search
‏جب ہم  اپنے کسی ڈیوائس سے  یعنی کمپوٹر/موبائل/کیمرہ یا کسی بھی اور ڈیوائس سے کوئی فائل بناتے ہیں چاہے وہ کوئی تصویر ہو، وڈیو ہو، ورڈ ڈاکومنٹ ہو پی ڈی ایف ہو تو اس فائل سے کچھ  اور بھی معلومات جڑ جاتے ہیں جو اس فائل کے بارے میں معلومات دیتے ہیں ۔ ان معلومات کو میٹاڈیٹا کہا جاتا یے۔ یعنی معلومات کے بارے میں معلومات۔ مثلا جب ہم کوئی تصویر کسی موبائل سے یا کسی کیمرہ سے لیتے ہیں تو تصویر کے ساتھ کچھ معلومات جڑ جاتے ہیں
‏جیسے تصویر کب لی گئی
‏کس ڈیوائس سے لی گئی
‏ڈیوائس کا ماڈل کیا ہے
‏اج کل تو تصویر کے ساتھ جیولوکیشن کی معلومات بھی میٹا ڈیٹا میں محفوظ ہوتی ہیں۔

‏ان میٹا ڈیٹا کی تجزیہ سے اچھی خاصی معلومات دشمن کے ہاتھ لگ سکتی ہے جو انتہائی نقصان کے حامل ہوسکتا ہے۔ اگر جیو لوکیشن ہاتھ لگے یعنی گھر کا پتہ دشمن کو دینا ۔

‏تصویری تجزیہ /Image Analysis
‏جب ہم کوئی تصویر اپلوڈ کردیتے ہیں تو
‏EXIF metadata کے  ساتھ ساتھ خود تصویر  بھی کافی معلومات دیتے ہیں ۔جیسے اگر ہم کسی پہاڑ کے اس پاس تصویر لیتے ہیں تو مخبر اور ڈیتھ اسکواڈ والے تو ان پہاڈوں سے واقف ہوتے ہیں وہ آسانی سے دشمن کو بتا دیتے ہیں یہ فلانہ علاقہ ہے۔

‏بالفرض اگر علاقائی مخبر پہچان نہ سکے تب بھی اس جدید دور میں تصویر سے جیو اسپیٹیل  ٹیکنالوجی سے ان پہاڑوں کی کافی معلومات مل جاتی ہے اور دشمن آسانی سے پتہ لگا سکے گا یہ پہاڑ کس علاقے کے ہیں ۔

‏اس آرٹیکل میں فلحال ایک عمومی جائزہ لیا گیا ہے تاکہ دوستوں کے بتایا جا سکے وہ کیا اور کیسی غلطیوں کی وجہ سے خود دشمن کو معلومات دیتے ہیں ۔

‏یہاں میرا مشورہ ہے کسی بھی جہد کار کو اپنے ٹھکانے میں تصویر لینے اور موبائل کی استعمال پر پابندی لگا دینی چاہیے۔  اور  کوئی بھی وڈیو/ تصویر صرف اور صرف آفیشل چینل سے شائع کیئے جائیں، وہ بھی میٹا ڈیٹا اور دیگر معلومات مٹانے اور تبدیل کرنے کے بعد۔ کسی بھی جہدکار کو اپنے اصل نام سے سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔

‏آخر میں یہی کہنا چاہوں گا  کہ اوپن سورس انٹیلیجنس سمیت دیگر جدید ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے بلوچ جہد کار بھی دشمن کے خلاف کاونٹر انٹلیجنس کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور دشمن سمیت مقامی مخبروں کی پروفائلنگ کرکے انکی چالبازیوں کو ان ہی پر پلٹ سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ ہم قومی تحریک ازادی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت ڈسپلن اپناکر اپنے جدوجہد کو جدید جنگی طریقوں سے ہم آہنگ کرکے جنگ کو آگے بڑھائیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں