ہوشاب واقعہ: جانبحق بچوں کی میتیں لے کر لواحقین کوئٹہ پہنچ گئے، احتجاج جاری

436

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاب میں 10 اکتوبر کو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے فائر کیے گئے مارٹر گولے سے جانبحق بچوں کی میتیں لواحقین کے لیکر درالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے –

جان بحق ہونے والے بچوں کے دادا سردو بلوچ نے الزام عائد کی ہے کہ ایف سی نے کچھ ہی مہینوں کے اندر میرے خاندان کے آدھے درجن سے زیادہ لوگوں کو ماردیا ہے اب مجھے انصاف چاہیے۔

جانبحق بچوں کے داد سردو بلوچ کے جوتے
جانبحق بچوں کے دادا سردو بلوچ کے جوتے

جاں بحق بچوں کی لواحقین نے 10 اکتوبر کو لاشوں کے ہمراہ ضلعی ہیڈ کوارٹر تربت کے شہید فدا چوک پر دو دن دھرنا دیا، تاہم ضلعی انتظامیہ نے لواحقین کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا –

جانبحق بچوں کے لواحقین کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ واقعہ میں ملوث ایف سی اہلکاروں پر مقدمہ درج کیا جائے، لیکن ایف سی اور ضلعی انتظامیہ اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ واقعہ میں ایف سی اہلکار ملوث نہیں ہیں –

ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بچے ایک دستی بم سے کھیل رہے تھے اور بم پھٹنے کی وجہ سے بچوں کی موت ہوئی ہے –

جبکہ لواحقین سمیت آل پارٹیز کیچ، سول سوسائٹی نے ضلعی انتظامیہ اور ایف سی کی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں ایف سی ملوث ہے اور واقعے کے دس منٹ بعد شواہد مٹانے اور بچوں کو زبردستی دفنانے کے لیے ایف سی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی –

گذشتہ شب لواحقین میتوں کے ہمراہ تربت سے دارالحکومت کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ہوشاب اور پنجگور کی حدود میں انہیں سیکورٹی فورسز نے گھنٹوں تک روکا اور لاشوں کو دفنانے کی درخواست کی –

احتجاج میں شریک ضعیف العمر خاتون فتح کی نشانی بنائے ہوئے

لواحقین نے لاشوں کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے کوئٹہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا، راستے میں مختلف چیک پوسٹوں پر لواحقین کو روکا گیا-

بدھ کی صبح لواحقین لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ گئے جہاں خواتین اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے لواحقین کا استقبال کیا اور جلوس کی شکل میں لاشوں کو شہر کے ریڈ زون گورنر ہاؤس کے سامنے رکھ کر دھرنا دیا –

لواحقین اور دھرنا شرکاء کا مطالبہ ہے کہ ہوشاپ واقعہ میں ملوث اہلکاروں پر ایف آئی آر درج کیا جائے اور بلوچستان کے آبادیوں سے ایف سی کو ہٹایا جائے –

جان بحق ہونے والے بچوں کے دادا سردو بلوچ کا کہنا ہے ہمارا قاتل ایف سی ہے ایف سی کی چوکیوں کو ختم کیا جائے ہمارا دوسرا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا گذشتہ سال دسمبر کی بائیس تاریخ کو آٹھ افراد کو فورسز نے قتل کیا تھا جن میں پانچ کا تعلق میرے ہی خاندان سے تھا ان میں میرا بیٹا بھی شامل ہے اور رواں ماہ دس تاریخ کو میرے ان ننھے بچوں کو شہید کیا گیا پہلے میرے بیٹے کو شہید کرکے میرے پانچ نواسوں کو یتیم بنایا گیا، وہ درد ابھی بھی میرے دل میں تھا کہ ایک اور زخم مجھے دیا گیا۔

سردو بلوچ کا کہنا تھا میری زندگی تو ختم ہوگئی ہے میرے بیٹوں کو مار دیا گیا ہے اب میرے گھر میں ایک ایسا کوئی نہیں ہے کہ مجھے دو وقت کی روٹھی بناکہ دے۔

انہوں نے مطالبہ کیا ہے ان تمام چیزوں کی تفتیش ہونے چاہیے اور مجھے انصاف چاہیے اور پورے بلوچستان میں ایف سی چوکیوں کو ختم کیا جائے۔

سردو بلوچ
جانبحق بچوں کے دادا سردو بلوچ

میتوں کے ہمراہ اور دھرنے میں شریک خاتون نے کہا کہ ہمیں ان حکمرانوں سے کچھ نہیں چاہیے وہ بلوچستان کے وسائل ہڑپ کریں لیکن ایف سی کو یہاں سے نکال دیں جنہوں نے بلوچ نسل کشی کا تسلسل جاری رکھا ہے –

گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بی این پی سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ طلباء اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے –

دھرنے میں شریک شرکاء نے لواحقین کی جانب سے اس مطالبے کی حمایت کی ہے کہ بلوچستان کے آبادیوں سے ایف سی کو نکالا جائے –

دھرنے میں شریک سائمہ بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو بتایا کہ بلوچستان سے ایف سی کو نکالا جائے اس مطالبے پر بلوچستان کے تمام قوم پرست جماعتوں کو یک آواز ہونا چاہیے –

سائمہ نے کہا بلوچستان کے جس علاقے میں فوج اور ایف سی نہیں ہے وہاں لوگ سکون محسوس کرتے ہیں اور جہاں یہ فورسز ہیں وہاں بدامنی اور لوگ قتل ہورہے ہیں –