بلوچستان سے پاکستانی فورسز نے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا جبکہ فورسز کے حراست سے ایک شخص بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔
حراست بعد لاپتہ ہونے والے شخص کو فورسز نے اس سے قبل بھی دو مرتبہ حراست میں لے کر لاپتہ کیا تھا جبکہ تیسری مرتبہ ایک بار پھر حراست میں لیا گیا ہے۔
لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت علی جان ولد نور محمد سکنہ خاران کے نام سے ہوئی ہے جوکہ پیشے سے ایک سبزی فروش بتایا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق علی جان ولد نور محمد ایک سبزی فروش ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فٹبالر بھی ہے جسے تین مرتبہ پاکستانی فورسز لاپتہ کرچکے ہیں۔
پہلی مرتبہ اسے 2018 میں نوشکی کے علاقے احمد وال سے ایف سی چیک پوسٹ سے لاپتہ کیا گیا جس کے دو مہینے بعد بازیاب ہوگئے، دوسری مرتبہ 10 مئی 2020 کو خاران سے ایف سی اور ایم ائی کے اہلکاروں نے لاپتہ کردیا جس کے 5 مہینے بعد انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں نے نوشکی پولیس کے حوالے کردیا اور اب تیسری مرتبہ 26 اکتوبر 2021 کو خاران سے سی ٹی ڈی نے خاران بازار والے بس اڈے سے جبری لاپتہ کردیا ہے.
دریں اثنا پانچ سال قبل مستونگ سے فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے جواد بلوچ بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
دوسری جانب ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کے انفارمیشن سیکرٹری عبداللہ عباس نے گذشتہ روز بارکھان میں پولیس کے حوالے کیے گئے افراد کے بارے میں یہ تصدیق کردی ہے کہ وہ پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد ہیں۔
عبداللہ عباس کے مطابق ان لوگوں پر گھناؤنے الزام لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں صوالی ولد شاہ بیگ کو فورسز نے ایک سال قبل حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا اور ناصر ولد محمد اسلم اور رحیم ولد عبدالواحد کو فورسز نے 29 ستمبر 2020 کو ان کے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کہ ناصر کے بھائی مسلم کو بھی کو فورسز نے ان کے ساتھ حراست میں لیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔