صبیحہ بلوچ کے رشتہ داروں کی عدم بازیابی کی صورت میں ملک گیر احتجاج کا اعلان

151

کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ طلباء تنظیموں نے مشترکہ پریس کانفرنس بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چئیرپرسن بانک صبیحہ بلوچ کے بھائی و کزن کی جبری گمشدگی و عدم بازیابی کی مذمت کی گئی

پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے طلباء تنظیم رہنماؤ کا کہنا تھا کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے بلوچستان میں گزشتہ دہائی سے طلبا سیاست پر جہاں ایک جانب قدغن عائد ہے تو وہیں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی جا چکی ہے کہا جاتا ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی قوم کے مستقبل کی ضامن ہوتی ہے اور بلوچستان کے طالبعلم آنے والے وقتوں میں ملک و قوم کے مستقبل کا ضامن ہیں نوجوان نسل کی علمی شعوری اور سیاسی تربیت کےلیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بنے اور طلبا سیاست میں کلیدی کردار ادا کرے –

انکا کہنا تھا کہ طلبا سیاست ہی وہ نرسری ہے جہاں طالبعلموں کی سیاسی تربیت کی جاتی ہے اور یہیں وہ طالبعلم ہیں جو آنے والے وقتوں میں سیاسی عمل کا حصہ بن کر ملک و قوم کے مستقبل کی راہیں متعین کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے طلبا سیاست پر مکمل طور پر قدغن عائد ہےاور طالبعلموں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کےلیے مختلف ہربوں کو آزمایا جا رہا ہے۔

طلباء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں طلبا سیاست پر پابندی کے باعث جہاں طلبا یونین غیر قانونی قرار دیے جا چکے ہیں تو دوسری جانب طالبعلموں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کےلیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال تسلسل کے ساتھ کیا جا رہا ہے جامعات میں طالبعلموں کو سیاسی عمل میں سرگرم کردار کے باعث ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ طالبعلموں کی نمائندگی کرنے کے پاداش میں طالبعلموں پر جعلی ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں اس کے علاوہ طالبعلموں کو سیاسی عمل کا حصہ بننے کے سبب ماورائے عدالت گرفتار کیا جا رہا ہے اور انھیں پابند سلاسل کیا جا رہا ہے طالبعلموں اور طلبا سیاست میں متحرک کرداروں کے ساتھ اس طرح کارویہ تسلسل کے ساتھ چلتا آرہا ہے۔

صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا شمار بلوچستان کے فعال ترین تنظیموں میں کیا جاتا ہے اور تنظیم طلبا مسائل کے حل کےلیے تسلسل کے ساتھ جدوجہد کرتی آ رہی ہے تنظیم کی جانب سے ہمہ وقت مختلف مسائل پر طالبعلموں نمائندگی کی اور طلبا مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کی کوشش کی گئی گزشتہ چند عرصے سے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی مرکزی چیئرپرسن صبیحہ بلوچ کو طلبا سیاست میں سرگرم اور متحرک کردار کے باعث مختلف قسم کے اذیت اور کوفتیں دی جا رہی ہیں جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔

انکا کہنا تھا کہ صبیحہ بلوچ طلبا سیاست میں ایک سرگرم اور متحرک کردار ہیں اور انھوں نے بلوچستان میں تمام سماجی بیڑیوں کو ہلاتے ہوئے ہمیشہ ہی سے طلبا مسائل کے حل کےلیے فعال کردار ادا کیا ہے اپنی مخلصانہ اور متحرک کردار کے باعث رواں سال مارچ میں ہونے والے تنظیم کے دوسرے کونسل سیشن میں وہ مرکزی چیئرپرسن کے طور پر منتخب ہوئیں مرکزی چیئرپرسن منتخب ہونے کے ساتھ ہی انھیں طلبا سیاست سے کنارہ کش اختیار کروانے کےلیے دھونس دھمکی جیسے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اداروں کی جانب سے جہاں ایک متحرک سیاسی رہنما کو دھونس دھمکیوں کا شکار بنایا گیا وہیں 19جون2021کو طلبا سیاست میں فعال کردار کے باعث اُن کے بھائی شاہ میر بلوچ کو جبری طور پر ماورائےعدالت لاپتہ کیا گیا اور 25ستمبر2021کو اُن کے کزن مرتضی بلوچ کو جبری گمشدگی کا شکار بنے۔

پریس کانفرنس طلباء کا کہنا تھا کہ اداروں کی جانب سے ایک متحرک اور سیاسی طور پر سرگرم طلبا رہنما کے قریبی افراد کو جبری گمشدگی کا شکار بنا نا اور لاپتہ افراد کو جواز بنا کر دھونس دھمکی سے کام لینا اور ان کے پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کرنا ایک غیر آئینی،غیر جمہوری اور انسانی اقدار کے منافی عمل کے طور پرجانا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا متحرک سیاسی کارکنان کے ساتھ حکومتی اداروں کی اِس طرح کے رویے نہایت ہی قابل مذمت ہیں طلبا سیاست میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور متحرک سیاسی کارکنان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف تمام طلبا تنظیمیں ایک پیج پر ہیں تمام طلبا تنظیمیں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرپرسن کو بزور طاقت سیاسی عمل سے کنارہ کش اختیار کروانے کے تمام حربوں کو نہ صرف رد کرتی ہے بلکہ اِس طرح کے گھناؤنے عمل کے خلاف عمل جدوجہد کا اعادہ کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اِس پریس کانفرنس کے توسط سےہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ حکومتی اداروں کی جانب سے طلبا سیاست اور سرگرم سیاسی کارکنان کے خلاف ہونے والے کسی بھی عمل کے خلاف تمام طلبا تنظیمیں ایک ہی پیج پر ہیں تمام طلبا تنظیمیں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی شاہ میر بلوچ اورکزن مرتضی بلوچ کو حکومت سے ایک ہفتے میں باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے اگر حکومتی اداروں کی جانب سے ایک ہفتے میں شاہ میر بلوچ اور مرتضی بلوچ کو بازیاب نہیں کیا گیا تو اگلے ہفتے سے ملک گیر احتجاجی سلسلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔