صبیحہ بلوچ کا دل روتا ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ چیخے،چلائے،روئے،احتجاج کرے یا وہ کتابیں پڑھے جو اس کے ہاتھ میں ہیں؟
یا ہاتھ بلند کر کے نعرہ لگائے،تقاریر کرے اور کہیں کہ”اس نظام کو بدلنا ہے“
یا وہ کچھ روئے،اور کچھ پڑھے!
یا وہ شال کی گلیوں میں یہ دہائی دے کہ”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“
یا وہ دوپٹے کو پرچم بنائے!
وہ کیا کرے،اور کیا نہ کرے؟
یہ سوال اہلِ علم کے لیے نہیں سیاسی اکابرین کے لیے ہے
جو یہ جانتے ہیں کہ صبیحہ کون ہے؟
وہ صبیحہ جو ”بساک“کی پہلی خاتون چئیرپرسن ہے
وہ صبیحہ جس کے کاندھوں پر دو بار ہیں
قوم کو پڑھایا جائے،قوم کو سکھایا جائے!
وہ صبیحہ جو کراچی کی گلیوں میں خوش اور شال کی گلیوں میں اداس رہتی ہے
وہ صبیحہ جو اپنے سینے پر ”بساک“کی ذمہ داریوں کا اعزاز سجا تی ہے اور پر مغز تقریر کرتی ہے
وہ صبیحہ جس کے سر پر استاد ٹالپر محبت بھرا ہاتھ رکھتا ہے
وہ صبیحہ آج کل سفر میں ہے،ایسا نہیں کہ اس کا یہ سفر کوئی آج کل شروع ہوا ہے یہ تو مقدر کی باتیں ہیں کہ بلوچ بیٹی ہو اور اس کے پیر مسافر نہ بنیں؟نہیں سب بلوچ بیٹیوں کو اس پل صراط سے گزرنا ہوتا ہے اور وہ سسئی کے جیسی مسافر بن کر پتھروں کو کہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ چل نہیں سکتی ہو تو رو تو سکتے ہو!
اس وقت کوئی پتھر صبیحہ کے ساتھ چل تو نہیں رہا
پر بلوچ دھرتی کے بلند وہ بالا پہاڑوں کے دامنوں اور چوٹیوں پر پڑے پتھر
اور سندھ کے کاچھو کے سرد اور سیاہ پہاڑوں کے سب پتھر اس بہادر بیٹی کے لیے رو رہے ہیں
یہ بات کل بھی سچ تھی اور یہ بات آج بھی سچ ہے کہ
”اللہ ڈاھی م تھیان ڈاھیون ڈکھ دسن“
اللہ دانا نہ کیجو!دانا درد دیکھتے ہیں دردوں میں پس کہ رہ جاتے ہیں!
صبیحہ بلوچ کا قصور بس یہ ہے کہ وہ مظلوم قوم کی مظلوم بیٹی دانا ہے اور اس وقت دردوں میں گرفتار ہے!
شال کیا شال کی گلیاں کیا،مورڑو کا شہر کا مورڑو کے شہر کی گلیاں کیا
یہ تو اس وقت دونوں شہروں کی گلیوں میں اپنے پنہوں کی تلاش میں ہے
وہ شال کی گلیوں میں بھی بھائی کو رو تی تھی اور پتا پوچھتی تھی اور آج یہ کراچی کی گلیوں میں بھی بھائی کو رو تی ہے اور پتا پو چھتی ہے
وہ تو کونج ہے
پیا ری سی کونج
خوبصورت کونج
آکاش کے رنگوں میں اُڑتی کونج
ایسی کونج جس کونج کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
”کونج بہ کائی گونج پریان ء جی!“
پر ایسا کیا ہوا کہ وہ آکاش کے رنگوں میں اُڑتی کونج آج گلیوں کی خاک چھان رہی ہے،پیر دھول آلود ہیں،مانگ اُجڑی اُجڑی ہوئی ہے۔جوتیاں مٹی سے بھری ہوئی ہیں۔اور جو تھیلا کاندھوں میں لٹک رہا ہے جس تھیلے میں کبھی انقلاب کی باتیں اور نظریات کی خوشبو ہوا کرتی تھی آج اس تھیلے میں اس گم شدہ بھائی کی تصویریں ہیں جن تصویروں میں وہ مسکرا رہا ہے اور ان تصویروں کو دیکھ کر اک بہن رو تی ہے
ایسے رو تی ہے جس کے لیے مرشد فیض نے فرمایا تھا کہ
”اک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں
آکاش کی نیلی راہوں میں
اک چیل زور سے جھپٹا ہے
شوپین کا نغمہ بجتا ہے!“
پر آج شوپین کا نغمہ نہیں بجتا پر آج اک ماں اک بہن کے دل کے تار بجتے ہیں
اور ان تاروں کی صدا کیا ہے؟
کون جانے اور کیوں جانے؟
کیا شعور بھری باتیں کرنا جرم ہے؟کیا کتابوں کی سنگت جرم ہے؟کیا پرائے شہروں میں بیٹھ کر اپنے لوگوں کی باتیں کرنا جرم ہے؟کیا اپنے لوگوں کے دکھوں کو یاد کرنا اور ان دکھوں پر آنسو بہانا جرم ہے؟کیا انا الحق کا نعرہ لگانا جرم ہے؟کیا غلط لکھے کو غلط کہنا جرم ہے؟کیا سچ کو سچ کہنا جرم ہے؟کیا کتابوں کو عزت دینا اور بہت سے انسانوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنا جرم ہے؟کیا سیا سی بالغ نظری جرم ہے؟کیا سیا سی پل صراط پار کرجانا جرم ہے؟کیا سیاسی وادی میں اتر جانا اور اپنے لوگوں کو یہ باور کرنا کہ تم بھی اس ندی سے تیر جاؤ گے جرم ہے؟
اگر یہ سب جرم ہے تو
سسئی جیسی صبیحہ
سسئی کے سفر جیسی صبیحہ
کونج جیسی صبیحہ
کونج کے رنگوں جیسی صبیحہ کا یہی جرم ہے
اور یہ اسی جرم کی پاداش میں شال کی گلیوں سے ہو تے ہوئے
بھٹائی کے دیس کی گلیوں تک پہنچی ہے
وہ اکیلی ہے
تنہا ہے
اداس ہے
اور سب سے بڑی بات کہ وہ
دردوں کی ماری ہے
اور اس سے بھی بڑی بات کہ
”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“
وہ علیل دل لیے کراچی میں کشتہ لیے اپنے محبت والے بھائی کی تلاش میں ہے
وہ بھائی جو محبت کا مینار ہے
وہ بھائی جو محبت کی مٹھاس ہے
وہ بھائی جو دل کا قرار ہے
وہ بھائی جو کورس کی کتابوں جیسا نہیں
وہ بھائی جو پہلے پہلے عشق جیسا ہے
وہ بھائی جو محبت میں پہلے بوسے جیسا ہے
اس بھائی کی تلاش میں آج صبیحہ کراچی کی گلیوں میں صدا دی گی
اسے تلاشے گی
اس کے لیے روئے گی
دوپٹے کو پرچم بنائے گی
کچھ کہے گی
کچھ سنے گی
اور بہت سا رو ئے گی
کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ بلوچ بیٹیاں گم شدہ بھائیوں کے لیے پیروں سے نہیں آنکھوں سے چل کے آتی ہیں
اور ہاتھوں سے نہیں دل سے ماتم کرتی ہیں
بلوچ بیٹیوں کے گم شدہ بھائیوں کے لیے آنکھیں نہیں رو تیں
دل!
جی ہاں دل رو تے ہیں
کیا تم صبیحہ کے دل میں جھانک پاؤ گے؟
صبیحہ کا بھی دل روتا ہے
اے شہر شرفا
آگے بڑھو
اور دیکھو
ایک بلوچ بہن کا
ایک بلوچ بھائی کے لیے دل روتا ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں