شمس بلوچ، الوداع! – منظور بلوچ

454

شمس بلوچ، الوداع!

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دس اکتوبر کا دن تھا،اور سال 2021 کی پہلی،سرد اور خنک شام، تب تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم سب نے کیا کھویا ہے؟ لگتا ہے اب پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیکن زندہ رہنا ہے تو جھوٹی امید کی جوت جلانی ہی پڑتی ہے۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثر اوقات جھوٹی امیدیں بھی کام نہیں دیتیں، اور آدمی اندر ہی اندر سے یک دم، یک لخت، ایک ہی سانس میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، نہ وہ رو سکتا ہے نہ ہنس سکتا ہے۔

زندگی معنویت سے عاری ہونے لگتی ہے اور جب زندگی ہی روگ بن جائے، زندگی ہی بوجھ بن جائے،تو کیسے جیا جا سکتا ہے، ہاں ایک صورت میں کہ آدمی اپنی مرن کی لاش کو پورے جیون پر ڈال کر جینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جینا تو نہیں ہوا، شاید جہنم بھی ایسا ہی ہو گا، اور ہم نہ جانے کب سے ایک دوزخ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں، لگتا ہے کہ ایک دن میں ہم صدیاں بتا دیتے ہیں، صدیوں کا سفر ایک لمحہ میں گزار دیتے ہیں، جیسے ”کفار مکہ“ ناول میں ہیرو کی صرف آدھے دن میں پوری دنیا زیر و زبر ہو جاتی ہے، صرف آدھے دن میں۔

دارا، ناول کا ہیرو، اپنی محبوب لالین کی موت کی خبر سنتا ہے، جو 27 دسمبر 2007ء میں اسی روز جس روز بینظیر بھٹو قاتلانہ حملہ میں ماری جاتی ہے، لالین بھی بینظیر کے ساتھ ہی بم کی کیلوں کی زد میں آکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے۔

دارا، کیفے منیر، جو ان کا ٹھکانہ ہے، وہاں وہ اپنی مخصوص میز پر اپنے تمام ساتھیوں کو لیاقت باغ کے جلسہ میں کھو دینے کے بعد، صرف بچے ہوئے اپنے دو دوستوں سے ملاقات کرتا ہے، جو انھیں عالم بے خودی میں مرنے والے دوستوں کا احوال دیتے ہیں، ساتھ ہی میں لالین کے مرنے کی خبر بھی ہوتی ہے، دارا، پھر سے مرگی کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے، اور وہیں کیفے میں ڈھیر ہو جاتا ہے، لوگ بھاگم بھاگ اسے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور مرگی کے مریض کو جوتا سنگھوا کر اسے ہوش میں لایا جاتا ہے، لیکن وہ سبھی کچھ جاننے سے بے خبر ہو کر گھر کی راہ لیتا ہے، اور اس قبرستان میں پہنچ جاتا ہے، جہاں اس کی ماں دفن ہوتی ہے، اور جلسہ سے کچھ گھنٹے قبل وہاں وہ لالین سے گفتگو کر رہا ہوتا ہے، لالین جو دو ماہ کے بعد یورپ سے آج ہی کے روز آئی ہے، اور وہ دارا کے ہم خیال گروپ کے پروفیسر عمر اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ماری جاتی ہے۔

دارا کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہے جا رہے تھے، ایسے لگ رہا تھا کہ اس نے لالین اپنے ہم خیال دوستوں کا غم تک نہیں مناتا ہے، ”۔۔۔۔ سوگ منانا تو شعوری فعل ہوا کرتا ہے اور میں (دارا) تو جو کرتا رہا وہ لاشعوری، میکانکی رد عمل تھا۔ اب میں اپنے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میری دنیا کے ساتھ کیا ہوا ہے، اب اس فٹ پاتھ کی تنہائی میں، میں خود کو بتا سکتا ہوں کہ لالین ماری گئی ہے، اب میں سمجھنے کی کوشش کر سکتا ہوں کہ ایسا ہونے کا اصل مطلب کیا ہے، اب میں اپنی آنکھوں سے آنسو بہانا بند کر سکتا ہوں اور اس کی جگہ خون بہا سکتا ہوں، 27 دسمبر 2007 کسی کے پاس میرے دکھ کو ماپنے کا آلہ نہیں ہے، لیکن کیا میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ خود میں نے کیا کھو دیا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

بالکل، کچھ ایسا ہی دس اکتوبر کو ہوا، شمس بلوچ بھری جوانی میں، بھرا میلہ چھوڑ کر چلا گیا، سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں عاری ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ دو دہائیوں سے یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے نوجوان اس طرح سے بھرے میلہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، شاید کیڑے مکوڑوں کی دنیا میں بھی ایسا کہرام نہیں مچا ہوگا۔

قاتل شاہرائیں، قاتل پانی، قاتل گولیاں، قاتل شہر، قاتل اشرافیہ۔۔۔۔
لیکن ذمہ دار کون ہے؟

کیا یہ سارے کے سارے قدرتی آفات ہیں؟ سب کچھ نیچر کر رہا ہے؟ اور بقول دارا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

مجھے نہیں معلوم کہ جب اسی روز ہم بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ڈگری کالج کوئٹہ کے ہال میں اپنے بچھڑے دوست پروفیسر اشرف بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے۔

تعزیتی ریفرنس کے بعد ہم اپنے محترم اور سینئر پروفیسر صدیق بلوچ کے ہمراہ ڈگری کالج کے لالہ زار میں بیٹھے، آصف سمالانی کی چائے پی رہے تھے، ساتھ میں ہمارے دوست اور کالج لیکچرار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری طارق بلوچ اور عبید ابدال بھی تھے، ہم اپنے زخموں کو کرید رہے تھے، خاموش اور چپ چاپ بیٹھنے والے، سننے والے پروفیسر صدیق بلوچ کی بوڑھی آنکھوں میں جھانکنے کی ہمت بھلا کسے ہو سکتی ہے؟ لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتا، اس لئے کہ جو دل کے دکھ اور گہرے زخم،اور روح کو لگے کرب کے کوڑے کوئی اشتہار نہیں ہوتے، کہ آدمی اپنے دل اور روح کے گہرے زخموں کی تشہیر کرتے پھرے، ہم پر جو آفتیں آئی ہیں (لگتا ہے اور بھی وقت کی مٹھی میں آفتیں ہو سکتی ہیں) ان کی ایڈورٹائزمنٹ کیونکر ہو سکتی ہے؟ ہاں، چندے کم ظرف لوگ ہمدردی حاصل کرنے کیلئے اپنی روح کے زخموں کو اشتہار بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔ (جو دراصل،انسانیت کی سب سے توہین آمیز شکل ہوتی ہے) ہم لان میں، اکتوبر کے مرجھاتے ہوئے پھولوں کے آس پاس بیٹھے پروفیسر اشرف بلوچ کو یاد کر رہے تھے کہ وہ شخص تو اچھا بھلا تھا، صحت مند، توانائی سے بھر پور،لیکن اس نے اپنا تبادلہ کیا پنجگور کالج کروایا کہ شال میں تبادلے کے باوجود اسکی جان ہی چلی گئی۔

اشرف بلوچ کی یادیں تازہ تھیں کہ شام کو فیس بک پر شمس بلوچ کی پہلی تصویر دیکھی، جس میں مسکرا رہا تھا، میں نے جانے انجانے میں لائک کر دیا، وہ ہانکا، سجیلا نوجوان، جو ابھی اپنی زندگی کے بیسویں دہیے میں تھا، بھر پور نوجوانی سے لبریز مگر کم گو، ابھی چند روز ہی ہوئے تھے، کہ وہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن سے ڈرگ انسپکٹر کی پوسٹ کے امتحان اور انٹرویو میں کامیاب ہو کر سلیکٹ ہوا تھا، ابھی اس کو آرڈر ملنے تھے، شاید چھ ماہ، یا سال، اس آرڈر کے حصول کیلئے اس کو بہت سے محکمانہ پروسیس سے گزرنا تھا، لیکن اس نے اس سے قبل ہی اپنے گہرے، لنگوٹیا دوستوں کے ساتھ سریاب روڈ پر کاشان ہوٹل کے ساتھ ہی شال میڈیسن قائم کر رکھا تھا، اس کی آنکھوں کے بہت سارے خواب تھے، وہ سب کچھ، خوابوں، ارمان، رنگ و نور کی مرادوں، خون کے سارے رشتوں، لنگوٹیا دوستوں کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلا گیا، جہاں سے کوئی کبھی لوٹ کر نہیں آتا، جس طرح دارا کی پوری زندگی آدھے دن میں کرچی کرچی ہو کر رہ گئی تھی، اسی طرح ایک آدھے دن میں اس کے چاہنے والوں، کی زندگیاں بھی ریزہ ریزہ ہو گئیں۔

کیا اس کا سوگ منایا جاسکتا ہے؟ شاید ہاں، شاید نہیں، کیونکہ اب تو ہم بچے کچھے لوگ ایسی انہونی، اندوہناک خبروں کے عاری ہو چکے ہیں، اس ایک سال میں، اس سے پہلے کے سال میں کتنے ہی نوجوان، ہمارے دوست، ہمارے ہم خیال، ہماری مٹی کے دلدادے جانے کتنے، خود مٹی میں چلے گئے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔

ہو سکتا ہے کہ دارا کی طرح میرا رد عمل بھی لاشعوری یا میکانکی ہو، کیونکہ اب ہم جلد بھول جانے کے عادی ہو چکے ہیں، اگر ہم عادی نہ ہوئے، تو ہم مر جائیں سب کے سب، مر تو رہے ہیں،ایک ایک کر کے، لیکن ذمہ دار کون ہے؟

اگلے روز جب میں گھر سے یونیورسٹی کیلئے نکلا تو مجھے نجانے ایسا کیوں لگا کہ آج یونیورسٹی میں چہل پہل کچھ حد سے زیادہ ہی ہے۔نوجوان طالب علم، اپنی بائیک پر بیٹھ کر،اونچی آوازوں میں، چیختے ہوئے، ہارن بجاتے ہوئے دور بیٹھے اپنے دوستوں کو متوجہ کر رہے تھے، بلا رہے تھے،کوئی کیفے ٹیریا میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لے کر لطف اندوز ہو رہا تھا، کچھ جوڑے راز ء نیاز میں گفتگو کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے، کچھ ہاسٹل کے قریب میں واقع کینٹین میں اپنے اپنے گروپ کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے، مجھے ایسا لگا، کہ جیسے ہم میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ کل کتنا بڑا سانحہ گزر چکا ہے۔۔ ہاں کل، تربت کے دو بچوں کی لاشیں بھی وائرل ہو رہی تھیں، جنکو قاتل گولیوں نے بھون ڈالا تھا، لیکن ذمہ دار کون ہے؟ اس سے قبل کمسن رامز بلوچ بھی مارا گیا تھا، کتنے لوگ، بچے، نوجوان بوڑھے، عورتیں دیکھتے ہی دیکھتے راہی عدم ہو چکے ہیں۔
تاج بی بی کا سوگ منایا جائے؟ گزشتہ روز کے دو معصوم بچوں کا؟ یا وہ جو دو بھائی اور کزن تھے۔ جن کو جبری اغواہ کر لیا گیا تھا۔

شال، اب وہ ہمارے خواب نگری نہیں رہی، اب تو شال، احتجاجوں، مظاہروں، جلسے،جلوسوں کا علاقہ بن چکا ہے۔ غم کے مارے، جیون سے ہارے لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں لیے، کچھ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ہاتھوں میں پوسٹر لئے احتجاج کر رہے ہوتے ہیں، لیڈر لوگ شاذ و نادر ہی، آکر کچھ تقریر ہی جھاڑ کر، میکانکی انداز میں لمبی لمبی باتیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ہاں آجکل وہ بھی بہت مصروف ہیں، کیونکہ کہی دنوں، بلکہ کئی ہفتوں سے جام حکومت کی تبدیلی کیلئے کشمکش جاری ہے، اور شاید اسی کشمکش نے، ہمارے بوڑھے دانا، مدبر، سردار عطا اللہ مینگل کے چالیس روزہ سوگ کو بھی ہڑپ کر لیا، سوگ، شعوری طور پر مناتے جاتے ہیں، یا بالکل غیر شعوری یامکمل میکانکی طور پر، اس کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟
کیونکہ کوئی کسی کے دل میں جھانک کر دیکھنے سے تو رہا، سوگ شعوری ہو، لا شعوری یا میکانکی، چلتن کی رونقیں آباد رہتی ہیں، بڑے بڑے لوگ سوگ کے دنوں میں بھی کسی قبائلی معتبر کی دعوت پر دعوتوں میں مصروف رہتے ہیں، اور ایسے دنوں میں، عام لوگوں کو، جنکی اوقات اب حشرات الارض جیسی ہے، چلتن یاترا کی اجازت نہیں ہوتی، اجازت دی بھی نہیں جا سکتی، اس لئے کہ چلتن کی سیکیورٹی کرنے والے بے چارے، غریب، تنخواہ دار لوگ، معتبر لوگوں کی دعوت کو خراب ہونے کیسے دے سکتے ہیں؟ ان کی ڈیوٹی بھی تو یہی ہوتی ہے نا۔

اور ہم لوگ جو اب صرف اس لئے زندہ ہیں، شاید آخری سانس تک کہ ہمیں جنازوں میں جانا ہے، کونٹ پر بیٹھے ہوئے آشنا اور نا آشنا لوگوں سے تعزیت کرنی ہے، فاتحہ پڑھنی ہے، اور مجھ سمیت شاید اکثر لوگ اب یہ ساری ذمہ داریاں میکانکی طور پر ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

صبح ہی جلیل مینگل نے کال کیا کہ شمس بلوچ کی فاتحہ خوانی پر جانا ہے، لیکن میں نے کہا اس کا گھر کہاں پر ہے، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں،اور پھر اس کیلئے بھی تو دل گردہ چاہیے کہ اپنے پیارے شمس بلوچ کی تعزیت کو جانا ہے، کتنا مشکل اور جان لیوا سوال لیکر جلیل مینگل کال کر رہا تھا، میں نہیں جانتا کہ اس کے گھر والوں، رشتہ داروں اور دوستوں پر کیا قیامت بیت رہی ہو گی؟

جی ہاں قیامت اور دوزخ۔ دونوں کو ہم اپنی اسی عارضی و فانی زندگی میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ذمہ دار کون ہے؟

ہم نے کتابوں میں، سکول کی کلاسوں میں، سر سبز، تعزیتی جلسوں میں قیامت کی باتیں سنی تھیں، کہ ایک روز متعین ہے، جب ہمارے کرہ ارض پر قیامت برپا ہوگی، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے، اور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

لیکن ہم اس عارضی دنیا میں روز قیامتیں دیکھ رہے ہوتے ہیں، پر قیامت کے ساتھ چلتی پھرتی، ہنستی ہنساتی، مسکراتی، شوخ زندگیاں دوزخ بن جاتی ہیں۔

اچھا ہی ہوا کہ ہمیں بھولنے کی عادت پڑ گئی ہے، اب یاد آنے پر یاد آتا ہے کہ جب اسی شال میں وکلاء کا قتل عام ہوا تھا، جس میں سبھی کے چاہنے والے مارے گئے تھے، سنگت جمالدینی، چاکر بلوچ، قاضی بشیر، قاضی جمیل، داود کاسی، عسکر اچکزئی، باز محمد کاکڑ اور نہ جانے کتنے وکیل۔ اسی شال میں 2013 کا علمدار روڈ کا سانحہ جس میں میرے ہم زلف بشارت اپنے سگے بھائی کے ساتھ نہ جانے اور کتنوں کے ساتھ بے موت مارا گیا۔اس کی بچی، کونین بشارت اب بڑی ہو چکی ہے، لیکن اس کے جنم سے قبل اس کے پیارے پاپا، اس دنیا میں موجود نہیں تھے، ایسے کتنے اور بچے ہونگے جھنوں نے اپنے والد کو، بھائیوں کو، صرف تصویروں میں دیکھا ہوگا، ہم بھول گئے۔ جب ہزارہ ٹاؤن میں بے حساب لوگ ایک ہی حملے میں مار دیئے گئے۔ ٹارگٹ کلنگ، مسخ شدہ لاشیں تو واقعی ہم بھول چکے ہیں اور جب طاہر ہزارہ بتا رہا تھا کہ اس نے اپنی ہم نسلوں اور قوم کے سینکڑوں جنازے اٹھائے تھے، اسے اتنا دکھ نہیں ہوا تھا، جب عیسی نگری میں ایک فالج ذدہ کرسچن باپ کے اکلوتے بیٹے کو گولی مار دی گئی تھی، حسن رضاکی کتاب اور اس کے مضامین بھی ہم بھول چکے ہیں، پولیس لائن میں کیڈٹوں کو جس طرح مارا گیا، 2013 میں اجتماعی قبروں کا انکشاف، اور اس کی رپورٹ کو جس طرح بھلا دیا گیا، ہم بھولتے چلے گئے، واقعی اگر بھولنے کی بیماری، جو اب نعمت سے ہمارے لئے کم نہیں، نہ ہوتی، تو ہمارا کیا حال ہوتا؟ اور اب کیا حال ہے؟

ہاں، مجھے اب اچھے سے یاد آ رہا ہے کہ جب 1996 میں سردار عطاء اللہ مینگل نے کیفے بلدیہ میں نئی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو قائم کرنے کا اعلان کیا تو ایک رپورٹر کی حیثیت سے میں نے، چائے کے دوران ان سے کہا کہ سردار صاحب میں آپ کی سوانح عمری لکھنا چاہتا ہوں، تو ان کی آنکھوں میں ایک لمحہ کیلئے جو رنگ آیا تھا، وہ میں بھول نہیں سکتا، انھوں نے ایک بزرگ، خاندان کے بڑے ہونے کی حیثیت سے بہت شفقت کے ساتھ میرے اس سوال کو ٹالتے ہوئے کہا کہ
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ہمارا حافظہ بھی چھن چکا ہے۔

میرے جانے والے دوست،نوجوان، شمس جان، یہی سمجھ لینا کہ ہم اپنا حافظہ کھو چکے ہیں، ہم شعوری طور پر چائیں بھی تو تمھاری نوجوان مرگ کا سوگ نہیں منا سکتے، نوحہ خوانی کر نہیں سکتے، صرف تمھاری جدائی کو اب ہمیں جھیلنا ہوگا، ساری زندگی، جب تک ہم بھی تمھاری راہ کے راہی بن نہیں جائے، جب تک ہم اس دنیا کے باسی ہیں، ہمیں جھیلنا ہوگا، تمھاری یاد آتی رہے گی، تمھاری یاد میں ہم شمع جلاتے رہیں گے۔ اور اس کے سوا ہم کیا کر سکتے ہیں َ؟ ہماری بساط ہی کیا؟ جھوٹی تسلیاں، جھوٹی امید کے سوا ہمارے دامن میں اور کیا ہے؟ جو تمھیں نذر کریں۔

کل سے تمھاری ایک وڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے، جہاں تم اپنے دوستوں کے ساتھ، شال سے اوپر کی پہاڑیوں میں بیٹھ کر،زندگی اور دوست۔ زندگی کیا ہے؟ بتا رہے ہو، ساتھ ہی تم مسکراتے ہوئے کتنی بے فکری سے اپنے ہاتھوں کے انداز سے بے وفا زندگی کا فلسفہ سمجھا رہے ہو، دو ہاتھوں کی جنبش سے تم نے ہمیں زندگی کا سارا فسانہ، سارا راز بتا دیا، اور پھر تم خاموشی سے چلے گئے۔
الوداع۔۔۔۔
الوداع۔۔۔۔
الوداع۔۔۔۔شمس جان۔۔۔۔۔
اور ہم نے شاید کچھ اور جینا ہے، جب تک، پھر کوئی ایسا سانحہ (میرے منہ میں خاک) رونما نہیں ہوتا،لیکن جو ہم نے خود کھویا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleبالگتر: پاکستانی فوج کے کیمپ پر حملے میں تین اہلکار ہلاک کیے ہیں – بی ایل ایف
Next articleشال کی گلیوں میں دو تابوت لائی ہوں ۔ محمد خان داؤد
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔