شال کی گلیوں میں دو تابوت لائی ہوں
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
اداس لاشیں کئی کلو میٹر سفر طے کر کے اس چوک پر پہنچ گئی ہیں جو چوک بھلے قاہرہ کے چوکِ انقلاب کی مانند نہ ہو پر آج کے بعد وہ چوک، چوکِ مٹی رنگ نہیں پر چوکِ سرخ ہوگا کیو نکہ اب اس چوک پر دو معصوم گھائل بچوں کے اداس لاش بھی پڑے ہیں جن کے گھائل وجود سے سرخ لہو ایسے ہی ٹپک رہا ہے جیسے مصلوب مسیح کے زخمی کاندھوں اور گھائل ہتھیلوں سے رس رہا ہے۔اب وہ شال کا چوک،چوک شہیداں ہے، چوک سرخ ہے اور چوک انقلاب بھی ہے،معصوم گھائل بچے جو زندگی میں نہیں کرپائے اب وہ بعد از مرگ کر رہے ہیں۔وہ زندگی میں پہاڑوں کے اوپر بکریوں کے پیچھے بھاگا کرتے تھے اور اب ان کے پیچھے انقلاب بھاگ رہا ہے، جدو جہد بھاگ رہی ہے اور وہ تقدیر بھاگ رہی ہے جو بلوچ سے کسی محبوبہ کی مانند روٹھ گئی ہے۔
اب گھائل بچے چوک شہیداں پر پڑے ہوئے ہیں اور انقلاب ان بچوں کے سرہانے بیٹھ کر ان کے گیت گا رہا ہے، اس تابوت میں بس گھائل بچے بند نہیں ہیں، پر وہ سچائی بند ہے جو ملکی میڈیا کی معرفت کسی کو نظر نہیں آتی۔ اس تابوت میں بس دو بچے نہیں پر وہ سینکڑوں بچے اور ان سینکڑوں بچوں کے سینکڑوں بابا بند ہیں جو بارود کی بوُ سے نہیں پر بارود کی آگ سے جھلس جا تے ہیں اور تابوتوں میں بند ہوکر بلوچ دھرتی کے کونے کونے میں پہنچتے ہیں۔
ان دو تاباتوں میں بس دو بچے بند نہیں پر پو ری دھرتی بند ہیں۔دھرتی کی نقل و حرکت بند ہے۔دھرتی کی شناخت بند ہے۔دھرتی کی بولی بند ہے۔وہ بابا بند ہیں جو اُٹھا لیے گئے ہیں۔وہ مائیں بند ہیں جو اپنے بچوں کو رو تی ہیں اور رو رو کر یا تو قبروں میں چلی گئی ہیں یا اندھی ہو گئی ہیں۔ان دو تابوتوں میں سیکڑوں لاش بند ہیں جو تاریک راتوں میں اداس قبروں کے حوالے ہوئے۔جن کی کوئی شناخت نہیں ہو تی،جو دھرتی کے کونوں میں ما رے جا تے ہیں اور دشت کے صحرا میں دفن ہو تے ہیں۔ان دو تابوتوں میں وہ سیکڑوں مائیں دفن ہیں جو کھلی آنکھوں سے اپنے پیاروں کو رو تی رہیں اور بند آنکھوں سے دفن ہو گئیں۔ان دو تاباتوں میں بوڑھے کاندھے اور اداس پیر دفن ہیں جو اپنے دکھوں سمیت دفن ہو گئے۔ان دو تابوتوں میں وہ منتظر آنکھیں بند ہیں جو نہیں معلوم کب ان تابوتوں سے نکلیں گیں اور اپنوں کو دیکھ پائیں گی؟
میں ان مسافر پیروں کا تو ذکر ہی نہیں کر رہا۔میں ان شکست خوردہ پرچموں کا تو ذکر ہی نہیں کر رہا
میں ان تصاویر کا تو ذکر ہی نہیں کر رہا کو بلند ہاتھوں میں رہیں اور ہاتھ نیچے ڈھلک گئے
میں ان سفروں ان مارچوں اور ان اعلانوں کا ذکر ہی نہیں کر رہا جن سفروں نے میری ماؤں کو تھکا دیا
میں ان دھوکوں کا ذکر ہی نہیں کر رہا جو میری بہنوں کو دیے گئے
واعدے،جھوٹے واعدے میں ان کا ذکر نہیں کر رہا
بینر ان لکھے،ادھ لکھے مٹے ہوئے
اعتبار!سچا جھوٹا
سیکڑوں الفاظ!تقاریر!
جذبات،آنسو
آہیں،سسکیاں!
دروں کو جھانکتی منتظر آنکھیں!
نم آنکھیں
سوالیہ آنکھیں
سورج کے ساتھ ڈوب جانے والی آنکھیں
چاند کے ساتھ طلوع ہو تی آنکھیں
ٹھہرے ہوئے جسم کی مسافر آنکھیں!
ماتمی آنکھیں
ماؤں،بہنوں،بیٹیوں اور بوڑھے باباؤں کی آنکھیں
میں ان سفروں کی تو بات ہی نہیں کر رہا جو ریا ست نے مجبور ماؤں اور اداس بیٹیوں سے کر وائے
اور ان کی مانگیں دھول آلود ہوئیں!
ان سفروں میں وہ مائیں اور بیٹیاں ایسی تھکیں جیسے ہنگلاج کے سفر میں لطیف تھکا تھا
لطیف کو تو تمر میسر تھا
ان ماؤں بیٹیوں کو تمر بھی میسر نہیں تھا جو ان کی جوتیاں اُٹھاتا
اور جان پاتا کے سفروں کے دوران انسان ہی نہیں جوتیاں بھی درد سے بھر جا تی ہیں!
میں اس کی تو بات ہی نہیں کر رہا کہ ان دو تابوتوں میں،بیویوں کی جوانی ماؤں کی بے فکری اور معصوم بچیوں کا بچپن بند ہے
پر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان دو تابوتوں میں وہ سیکڑوں آنسو بند ہیں جو بوڑھے والد نے جوان بچے کے لیے گھر والوں سے چھپ چھپ کر بہائے ہیں
ان دو تابوتوں میں طویل انتظار بند ہے
ان دو تابوتوں میں مسخ لاشیں بند ہیں
ان دو تابوتوں میں مقبوضہ بلوچ دھرتی بند ہے
میں حیران ہو کہ دھرتی سُکڑ کر اتنی چھوٹی ہوکر ان دو تابوتوں میں کیسے بند ہو گئی ہے؟
ان دو تابوتوں میں اداس گھر کا ہلتا در بند ہے
ان دو تابوتوں میں مہراب بلوچ بند ہے
جس نے بار صلیب کی ماند ان دو تابوتوں کو شال کی گلیوں میں پہنچایا ہے
اور بوڑھی ماں کو بتایا ہے
”یہ دھرتی تمہا ری ہے
یہ لوگ تمہا رے ہیں
یہ بولی تمہاری ہے
اگر بُلا سکتی ہو انہیں
تو بلاؤ
اگر بتا سکتی ہو
ان کو
تو بتاؤ
میں ہجر کی ما ری ہوں
میں درد کی ما ری ہوں
میں قہر کی ما ری ہوں
وہی ہوں میں
وہی کپڑے پرانے ہیں
وہی بوسیدہ جو تے
وہی پھٹا سا دو پٹہ
وہی اداس سی آنکھیں ہیں
اگر آتے ہو
تو آجاؤ
میں شال کی گلیوں میں
دو تابوت لائی ہوں!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں