سیاسی اسٹیج سے گوریلا کمانڈ تک کامریڈ مزار ایک جہدکار ایک سرمچار
تحریر:چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچوں کی یہ جبلت ہے کہ وہ اپنے ہی مٹی پر قربان ہونے کو قابل فخر مانتے ہیں اور وطن کی مٹی میں دفن ہونے کو اعزاز کے طور پر قبول کرتے ہیں۔
بلوچوں کے خون میں ہمیشہ سے یہ خصلت موجود رہا ہے کہ زور آوری کا جواب انہوں نے اپنے بساط کے مطابق بھر پور طریقے سے دیا ہے یقیناً ریاست کے مقابلے میں بلوچ کمزور ضرور رہا ہے لیکن بلوچ نے کبھی بھی اپنے مزاحمتی تحریک سے راہ فرار اختیار نہیں کیا، بلوچ کی تربیت میں کبھی میدان کو خالی چھوڑ کر اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنا نہیں رہا ہے۔
ایک گوریلا کمانڈر جب بھی کسی کام یا عمل میں حصے دار ہوتا ہے تو وہ اپنے نقصان اور فائدے کا اندازہ پہلے سے ہی لگا لیتا ہے کہ مستقبل میں حالات کیسے ہوسکتے ہیں اور ایک سنگت کی جگہ دوسرے سنگت کو کیسے تبدیل یعنی (Replacement) کیسے کرنا ہے اور جنگی حالات میں دوستوں کو محفوظ مقام تک کیسے رسائی حاصل کرانا ہے یا اگر کسی نقصان کی صورت میں ماحول کو کیسے سنبھالنا ہے، یہ تمام خصوصیات اس میں پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں اور تب ہی اسے کمانڈ دیا جاتا ہے اور اسے کمانڈر کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
لفظ کمانڈر کا مجموعہ صرف چھ الفاظ کے ملاپ سے جڑ کر بنتا ہے لیکن اس کی زمہ داریاں ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتیں، یہاں کمانڈ کے لیے ہر وقت کمانڈر کو حاضر دماغ ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول کے تمام حالات سے ہر وقت واقفیت ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔
ان تمام صلاحیتوں سے لیس کمانڈر گنجل جان کو تنظیم چار سال کے کم مدت میں ان کی مخلصی ،ایمانداری اور جنگی صلاحیتوں کو دیکھ کر مکمل اعتماد کے ساتھ علاقائی کمانڈر کے حیثیت سے تمام زمہ داریاں اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جس اعتماد کے ساتھ تنظیم نے کامریڈ مزار کو یہ زمہ داریاں سونپی تھیں، سنگت مزار نے آخری وقت تک اپنے مظبوط نظریے کے ساتھ اپنے تمام صلاحیتوں اور خصوصیات کو بروئے کار لا کر دن رات کے محنت سے تمام زمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھاتا رہا۔
کامریڈ مزار نے یقیناً شور پارود کے خون جمانے والے سردی اور پہاڑوں کی سخت ترین زندگی کو قبول کرلیا تھا۔ کامریڈ مزار ان تمام تکالیف کے لیے پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار تھا کیونکہ کامریڈ سنگت مزار کے سینے میں ڈیرہ بگٹی سے لیکر گوادر کے ساحل تک بلوچ پر جو جو ظلم ہوئے ہیں وہ تمام ظلم و جبر کا انتقام لینے کے لیے ہی کامریڈ مزار نے پہاڑوں کا انتخاب کیا تھا۔
کامریڈ مزار نے بلوچ سرزمین پر ریاستی بمباری سے معصوم بچوں کے قتل عام کو محسوس کیا اور بحیثیت بلوچ اپنے فرض کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھی اس راستے کے چناؤ کے فیصلے پر قائم رہا۔ کامریڈ مزار ریاستی ظلم و جبر سے بغاوت کر کے اپنے فکری دوستوں کے کاروان میں ہمگام ہوتا ہے۔
آج اگر دوستوں کی شہادتیں ہورہی ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تحریک آج منظم طریقے سے اپنی منزل کی طرف رواں ہے اور انہی قربانیوں کے بدولت تحریک مزید مظبوط ہورہا ہے اور ہمیں بحیثیت جہد کار مایوس نہیں ہونا ہے بلکہ ہمیں مطمئن ہونا ہوگا کہ یہ جنگ جاری ہے اور انہی شہادتوں کے بدولت بلوچ قومی تحریک نے دنیا میں اپنا ایک پہچان بنا لیا ہے۔
ڈھلی جو شام سفرِ آفتاب ختم ہوا
کتابِ عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقدِ جان ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حساب ختم ہوا
عطا شاد
یقننا آج اگر بلوچ قومی جہد میں کامریڈ مزار جیسے کردار موجود ہیں، وہ بولان کے محاذ سے لیکر مکران کے سنگلاخ چٹانوں تک دشمن کے لیےقہر ثابت ہورہےہیں، آج بحیثیت بلوچ ہمیں سخت سے سخت فیصلے کرنے ہونگے جس سے ہمارا وجود تاریخ میں زندہ رہے اور ہمارا کردار تاریخ میں ہمارے آنے والے نسلوں کے سامنے سرخرو ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں