سرخ پرچم کی قندیل کو دفن مت کرو
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ سرخ قندیل جیسا بلوچ بچہ بجھ گیا!
جسے ماں ہر روز بوسوں کے پیار سے جلاتی رہتی تھی
اب وہ ماں جل رہی ہے
اور قندیل بجھ گئی
سرخ قندیل! سرخ رو قندیل،جلتی قندیل،جلتی بجھتی قندیل
وہ قندیل آخری بار بھڑکے سے جلی،کھلی بند آنکھوں سے ماں کو دیکھا اور بجھ گئی
اب وہ کبھی نہ جلے گی، ماں اسے ایک کیا ایک ہزار محبت کے بوسے دے پھر بھی نہ جلے گی۔
اب تو بس اس ماں کو جلنا ہے عمر بھر،باقی عمر،عمرِ تمام!
قندیل بجھانے والے کچھ نہیں جانتے اگر وہ یہ جان پا تے کہ اس ماں نے اس سرخ رو قندیل کو محبت کے بوسوں سے کیسے جلا رکھا تھا تو وہ نہ تو اس گھر میں گھستے، نہ چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتے نہ کچے مکاں کے کچے صحن میں آگ لگاتے نہ گھر کی ماؤں کی چادریں اور بچوں کی کپڑے جلتے نہ مائیں بہنیں بیٹیاں سہمتی کچے مکاں کے کسی کونے میں چیختی رہتیں،نہ کچھ جلتا اور نہ وہ قندیل ہی بجھتی۔
پراب تو سب کچھ جل گیا،اور اگر کچھ باقی ہے تو ماں کا تار تار دامن
اب تو سب کچھ جل گیا اگر کچھ باقی ہے تو کچے مکاں کی خاک!
اب تو سب کچھ جل گیا اگر کچھ باقی ہے تو ماتم کرتی ماں کے آنسو
ماں کے آنسو بھی اس قندیل کے زخمی اور جلتے جسم کو نہیں بجھا پائے
جس نے اپنے نازک جسم میں بھاری بارود سہا اور روتے ہوئے ایک فرمائیش کی
”اماں اماں اُٹھاتی کیوں نہیں ہو؟“
اور جب ماں کونج کی طرح اس پر لپکی
تو سب کچھ ختم ہو چکا تھا
اب جاؤ اور جا کر اس گھر میں دیکھو
جس گھر میں سب کچھ جلا ہوا ہے اور ماں ایک معصوم لاش کے سرہانے سوالیہ نشان (؟) بنی بیٹھی ہے!
اب ماں بجھی ہوئی قندیل کی خاک،راکھ جمع کر رہی ہے
اور مرتی،بجھتی قندیل ایسا منصور بھی نہ تھا کہ اس کی راکھ دجلہ میں ڈالی جائے اور دجلہ میں جوش آ جائے
دجلہ کے جوش کو چھوڑو!
اک بلوچ ماں ہوش گنوا بیٹھی ہے اور ملکی میڈیا پر یہ نشر ہو رہا ہے کہ
”وڈیوز کیوں لیک ہو رہی ہیں!“
اک بلوچ ماں ہوش گنواں بیٹھی ہے
اور ملکی میڈیا ہر زر تاج گل سے لیکر محمد زبیر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جو وڈیوز آئی ہیں یہ ان کی نہیں ہیں!
اک بلوچ ماں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی ہے
اور ملکی میڈیا میں یہ بتایا جا رہا ہے یہ جتایا جا رہا ہے کہ
”بھنگ کیا ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں!“
اور ملکی میڈیا کی پہنچ سے بہت دور کوئی اس ماں کا جلتا دامن اور بھیگے نین نہیں دیکھ رہا جس ماں کا جلتا قندیل بجھ گیا۔نہ ماں جانتی تھی کہ سیاست کیا ہے،بی ایس او کیا ہے اور اس می چھپا سرخ رو قندیل کیا ہے؟
اور نہ وہ معصوم بچہ جانتا تھا کہ سیاست کیا ہے؟بی ایس او کیا ہے؟بی ایس او کا منشور کیا ہے اور اس پرچم میں چھپا سرخ رو قندیل کیا ہے
وہ ماں اور بچے اتنے معصوم تھے جتنے وہ مسافر پرندے جو سردیوں میں سائیریا سے اُڑ کر ان ندیوں،نالوں دریاؤں اور جھیلوں میں آتے ہیں جہاں زندگی ہے اور زندگی انہیں بُلاتی ہے پھر ماری شکا ری اپنی بندوقیں ان کی طرف کر کے انہیں قتل کرتے ہیں
کیا بلوچستان کی مائیں بھی مسافر پنکھ ہیں؟
کیا وہ مسافر مائیں اپنے بچوں کے ساتھ سرد ترین ملکوں سے اُڑ کر زندگی میں تلاش میں آتی ہیں اور قتل ہو جا تی ہیں؟
کیا ان مسافر ماؤں کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ جب وہ وشال آکاش پر اُڑیں تو اپنے معصوم بچوں کو ساتھ نہ لائیں؟
کیا یہ مائیں اپنے ہی دیس میں اوپری ہیں؟
کیا یہ دیس ان ماؤں،بیٹیوں،محبوباؤں اور ان بچوں کا نہیں جن کے نازک نفیس جسم میں بارود آر پار ہو جاتا ہے
اور وہ بلوچ دھرتی پر ایسے گر پڑتی ہیں جن کے لیے خلیل جبران نے لکھا تھا کہ
”وہ اپنے پر پھیلائے دھرتی پر ایسے پڑی ہوئی تھی کہ
جیسے کوئی اپنی ماں سے گلے مل رہی ہو“
ان ماؤں پر بارود سے بھری چیلیں ایسی زور سے جھپٹتی ہیں کہ وہ نہ تو سمجھ پاتی ہیں اور نہ سنبھل پا تی ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟جب تک قندیلیں بجھ جا تی ہیں اور ان ماؤں کی ایسی حالت ہو تی ہے جس کے لیے مرشد فیض نے لکھا تھا کہ
”شوپین کا نغمہ بجتا ہے
اک کونج کو سکھیاں چھوڑ گئیں
آکاش کی نیلی راہوں میں
اک چیل زور سے جھپٹا ہے
شوپین کا نغمہ بجتا ہے
شوپین کا نغمہ بجتا ہے!“
وہ معصوم قندیل تو بارود کی بو اور آگ سے بجھ گیا
اب وہ ماں کے سیکڑوں کیا،ہزاروں کیا پر ان گنت اور لاتعداد بوسوں سے بھی نہیں جلنے والا
اب کیا ماں اس معصوم کو اپنے دامنِ تار میں دفن کرے؟
آنکھوں میں؟
گیلے نینوں میں؟
دل میں؟
اک قندیل
اور بے تحاشہ محبت
ماں اسے دفن کرے بھی تو کہاں کہاں کہاں؟
پر وہ دیر یا بدیر دفن ہو ہی جائیگا
اور ملکی میڈیا یہ جان ہی نہیں پائیگا کہ
کون کہاں دفن ہوا؟
ملکی میڈیا میں تو اس وقت زرتاج گل زبیر کے چرچے ہیں کہ ان کی وڈیوز اصل ہیں یا جعلی؟
پر کوئی بھی یہ نہیں دیکھ رہا کہ اس ماں کا درد بلکل اصل ہے بلکل ایسا ہے جیسا اس کا دل!
اور یہ بھی سچ ہے کہ اس ماں کا گھر بھی جلا ہے
اور کچے ماں کا صحن بھی!
اور یہ بھی سچ ہے کہ اک قندیل بجھ گئی
اور ماں اس کے سرہانے بیٹھ کر اسے محبت بھرے بوسوں سے جلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے
اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ قندیل نہیں جلے گی
اب کیا وہ ماں اس بجھی قندیل کو دفنا دے
وہ قندیل
جو سرخ رو تھی.
وہ قندیل جو بہت پیا ری تھی
وہ قندیل جو سیا ست،بی ایس او سرخ پرچم سے واقف نہ تھی
کوئی کچھ بھی کہے اور کرے پر یہ بھی مٹی بُرد ہو جائے گی
اور پیچھی رہ جائیگی کونج جیسی اکیلی ماں
خدا را اس قندیل کو دفن مت کرو
مت کرو
مت کرو
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں