بارڈر بندش
تحریر: بانک سدرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بارڈر بند ہونے کی وجہ سے عوام کی زندگی بری طرح سے متاثر ہوچکی ہے۔ بلوچستان کے لوگ کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گو کہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے مگر اسکے باوجود بلوچ اور بلوچستان بزگی اور مفلسی میں مبتلا ہیں۔ بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کا گزر بسر تیل کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
مکران میں بیشتر بنیادی ضروریات زندگی کے اشیاء ایران سے آتے ہیں یا آتے تھے۔ مگر اب حکومت کی طرف سے بارڈر بند ہونے کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ دو وقت کے روٹی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ مگر نہ کسی حکومتی ادارے کو فرق پڑتا ہےاور نہ ہی کسی عوامی نمائندے نے آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے۔سوائے مولوی ھدایت الرحمن صاحب کے مگر ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ مولوی صاحب کے اچانک ابھرنے کے پیچھے کونسے محرکات ہیں۔ خیر وقت سب کچھ واضح کردیتا ہے۔ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔فلحال قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے۔
اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف تو بات ہو رہی تھی بارڈر بندش کی جسکی وجہ سے ٹینکرز مالکان کے ٹینکرز بند پڑے ہیں۔ مگر پھر بھی انکا کاروبار ماشااللہ سے بہترین طریقے سے چل رہا ہے۔ ایک تو یہ حضرات کئی زمباد کے مالکان میں سے ہیں،اور دوسری طرف نجانے کتنے ٹوکن بھی انہی کی پاس ہیں – ایک زمباد پچیس دن میں یا مہینے میں ایک یا دو ٹرپ لگائے تو جنکے پاس اگر پانچ،دس زمیاد ہیں،اور اسٹکرز دس پندرہ سے بھی زیادہ رکھیں ہیں- جو زمیاد اپنا ٹرپ مکمل کرکے واپس آتا ہے تو مالکان نمبر پلیٹ تبدیل کرکے وہی گاڑی پھر روانہ کردیں تو ایک ٹریپ کے اگر ایک ڈیڑھ کمالیں تو پانچ گاڑیوں کے دو دو ٹریپ کا کتنا کمائی ھوگا حساب قارئین خود لگالیں،
اور بات آتی ہے ایک ایسے شخص کی جو اپنی تمام زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کرکے اگر ایک زمیاد خرید بھی لے تو کتنے ٹرپ اسکے حصے میں آیئنگے؟
اب جب اسٹکرز کیلیے تمام گاڑیوں کو ایک جگہ جمع کی گئی ہیں،تاکہ ٹوکن سسٹم کرائے جاسکیں؛اب ظاہر سی بات ہے،لالچ تو انسانی فطرت میں شامل ہے اور لوگ زیادہ اسٹکرز کیلیے ناکارہ گاڑیوں کو نجانے کہاں کہاں سے اٹھا کے ٹوکن کیلیے جمع کرچکے ہیں گو کہ یہ ناجائز ٹہرا مگر وہ صاحبان طنز اور طعنے ایک دوسرے کو دینے میں لگے ہیں،
اگر آپ اپنے ان بچوں کیلیے بھئ ٹوکن بنوا لو جنکا وجود بھی نہیں ہو تو چلے گا ‘مگر وہ گاڑیاں جو وجود تو رکھتی ہوں مگر معذور ہوں تو یہ ناجائز یا لالچ ٹھرا،واہ رے واہ دوغلے پالیسی والوں- جو تم کرو وہ جائز جو غریب عوام کرے وہ گناہ، ہمیشہ غریب طبقے ہی پستے ہیں ناانصافی کی چکی میں،
کیا ریاست کے مظالم اور ناانصافی کافی نہیں ؟ جو بلوچ قوم کے اعلی اور صاحب حیثیت لوگ بھی اپنوں کو اس ناانصافی اور ناامیدی سے ایذا پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں- دراصل اب یہ خود بھی نہیں چاہتے کہ بارڈر اوپن ہو،اور ہر عام و خاص اپنا کاروبار آسانی سے کرسکے- افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ایسے ذہنی مریضوں پر۔
پہاڑوں پر بیٹھے وہ فرزندان وطن کس قوم کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں؟ ان کیلیے جنکا ایمان صرف اور صرف پیسہ ہے؟ وکن کے پجاریوں اپنا قبلہ پہچان لو خدارا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں