ناروے کے بلوچ نژاد شہری احسان ارجمندی نے گذشتہ روز سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر بلوچستان سے اپنے جبری گمشدگی کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں 13سالوں تک بلوچستان میں مختلف ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا تھا۔ جہاں انہیں دوران جبری گمشدگی 24 گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے آرام کی اجازت تھی۔
انہوں مزید کہا کہ میرے ساتھ بہت سے دیگر لوگ آئی ایس آئی کے تحویل میں تھے اور کئی لوگ دوران ٹارچر اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
احسان ارجمندی نے انکشاف کیا کہ دو بلوچ خواتین کو انکے سامنے شدید ٹارچر کرکے مار دیا گیا۔
احسان ارجمندی کے مطابق آئی ایس آئی کے اہلکار ٹارچر کے دوران بہت سے قیدیوں کے منہ اور ناک میں پیٹرول ڈال کر یا الیکٹرک شاک دیکر انہیں اذیت دیتے ہوئے انہیں شدید ٹارچر کرتے تھے۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وہاں لوگوں ایک کوڈ نام بھی دیا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کو نہیں پہچانا جائے اور کبھی آئی ایس آئی اہلکار خود بھی قیدیوں کی شکل میں آکر آپ سے آپ کا نام پوچھتے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی نے ان سے ایک سوال پوچھا کہ کیا آپ کی ملاقات ایک ایسے قیدی سے ہوئی جو لاپتہ ہیں یا اسکا نام آپ کو یاد ہے تو انہوں جواب دیا کہ میرا ذہنی توازن بہت کمزور ہے مجھے کچھ یاد نہیں، ملاقات نہیں ہوئی، وہاں ایک دوسرے کو دیکھا نہیں جاسکتا مگر آواز کئی لوگوں کی سنی ہے مگر مجھے اس وقت کچھ یاد نہیں۔
انہوں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا میرا ارادہ ہے میں اپنے جبری گمشدگی کے حوالے بین الاقوامی سطح سے پاکستان خلاف کیس کروں مگر اس وقت کورونا کی وجہ سے کئی ادارے بند ہیں۔
پروگرام میں اس کے بڑے بھائی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ احسان کے جبری گمشدگی کے اوقات خاندان کی حالت زندگی کس طرح بحال رکھا اور اس دوران اس کی بہن اور والدہ اپنے بھائی کی جدائی سے کس دلبرداشتہ ہوکر انتقال کرگئے۔
یاد رہے کہ ارجمندی کو اگست 2009 میں پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ بلوچستان میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جا رہا تھا۔ اس کا ٹھکانہ نامعلوم رہا اور اس مدت کے دوران اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
انہیں 13سال کی طویل گمشدگی کے بعد رواں سال کے اگست میں رہائی ملی۔
احسان ارجمندی ناروے میں 1991ء سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کی ایک اہلیہ اور تین بچے ہیں اور وہ نارویجین ڈائریکٹوریٹ آف امیگریشن اور اوسلو میونسپلٹی کے لیے ترجمہ کار کے طور پر کام کرتے رہے ہیں، جبکہ ان کے آباواجداد کا تعلق ایران کے صوبہ سیستان سے ہیں۔