فدائی سربلند کتابِ جنرل اسلم کا ایک اور باب – علی جان

1583

فدائی سربلند کتابِ جنرل اسلم کا ایک اور باب

تحریر: علی جان

دی بلوچستان پوسٹ

11 اگست 2018 کو جنرل نے جس کتاب کو تخلیق دی تھی، ہم سب اس کے الفاظ اور صفحے ہیں لیکن جنرل کے اس تخلیق کردہ کتاب میں ایسے باب موجود ہیں جو تحریک کے جہد میں دوبارہ تیزی اور نئی جہت لاسکتے ہیں۔ جنرل اسلم کا پہلا باب فدائی ریحان ، جنرل کا لخت جگر تھا۔ مایوسی اور اندھیرے میں گھِرا تحریک فدائی ریحان کی قربانی سے دوبارہ جوش و ولولے میں آگیا، اندھیرے روشنی میں بدل گئے، جھوٹ فریب پر مبنی تحریریں اور باتیں اس باب کے آتے ہی منجمد ہوگئے۔ روشنی کو سب نے دیکھا اور تسلیم کیا یہ سفر آزادی کا خواب لیکر جاری ہوا ایک عظیم بیٹے کے جذبے نے ایک عظیم باپ کو قربانی دینے پر آمادہ کیا اور آج وہ تاریخ کے ہر باب میں ہمیں ملتا ہے۔

قبل ازیں، جنرل اسلم اس کتاب کا خواب بولان کے آغوش میں رہ کر سارو کے بلند پہاڑ کے دامن میں دیکھ چکا تھا اور اس کا پیش لفظ باز خان عرف درویش جیسے بلند ہمت کی صورت میں لکھ چکا تھا۔

اس پہلے باب کی تخلیق نے تحریک کے ٹہرے پانی میں ایسا ارتعاش پیدا کیا کہ اسکے بعد قربانی سے عبارت جنرل کے کتاب کے مزید باب در ابواب کھلتے گئے۔

فدائی سربلند جنرل کے کتاب کا مزید ایک نایاب باب ہے، جس کی قربانی نے ایک بار پھر دشمن کو باور کرایا کہ تمہیں ہر وقت ایک ریحان کا سامنا کرنا پڑیگا جو تم سے جیتنے یا ہارنے کیلئے نہیں بلکہ یہ بتانے آئے گا کہ ہم اس زمین کا ہرگز سودا کرنے نہیں دینگے۔

میں اس خوبصورت قد کاٹ والے نوجوان کو بنیادی طور پر نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اس سے پہلے ملا تھا لیکن انقلاب کا رشتہ تھوڑی جان پہچان سے استوار ہوجاتا ہے، بس ایک فرضی نام سعید بلوچ کے نام کیساتھ ان کا مجھ سے تعارف ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ زمین اپنے حقیقی وارث کو پہچان لیتی ہے اور اسے اپنی آغوش میں پناہ دیتی ہے یا پیغام دیتا ہے۔

میرا کام آدھے رستے سے شروع ہوا، جب آپریشنل کمانڈ نے کہا علی تمہارا کام یہ ہے کہ انہیں سنبھالو! لیکن کمانڈر کو کیا پتہ تھا اسے سنبھالنے میں نہیں بلکہ ساحل خود پہنچ رہا ہے۔

جب سربلند سے ملاقات ہوئی، سلام دعا کے بعد سربلند نے کہا میرے گوادر میں پہنچنے سے پہلے ہی ساحل آیا ہے، میں نے ہنس کر کہا کہ گوادر آپ کو ویلکم کررہا ہے۔ وہ بھی ہنس کر بولا سنگت بلکل۔

اسکے بعد ہم اپنے سفر کی طرف روانہ ہوئے۔ بقول دوست: وہ نوجوان شہر کی حرکات پر سنجیدگی سے غور کررہا تھا ماحول، حالات اور موسم کو محسوس کررہا تھا، اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہ شہر میرے انتظار میں تھا بغیر مزید سوال پوچھے سربلند نے کہا “سنگت ہدف؟” جواب ملا “4 بجے پیغام پہنچے گا”، ٹھیک 4 بجے سنگت نے پیغام بھیجا “شمے ٹارگٹ پکا انت تیاری بکنے”۔ (آپ کا ٹارگٹ کنفرم ہے، تیاری کریں۔)

جب سربلند نے اس پیغام کو سنا تو اسکے چہرے پر خوشی دیدنی تھی اسے بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ پھر ہم دونوں اپنے مشن کی تیاری میں لگ گئے۔ جب ہماری تیاری مکمل ہوئی تو سربلند نے مسکرا کر کہا “اوار انت سنگت” اور وہ بنا کچھ کہے اپنے آخری سفر کی طرف روانہ ہوا۔

میرا آخری کام کمانڈر کو پیغام دینا تھا “سنگت درکپتا” (سنگت ہدف کی جانب نکل چکا ہے) پھر ہم فضاؤں کے پیغام کا انتظار کر رہے تھے، ٹھیک 7 بجے فضاؤں نے ہمیں پیغام دیا کہ تمہارا دوست اب زمین کی آغوش میں ہے، تم لوگ بے فکر ہوکر جاسکتے ہو۔

شاید سورج سب کچھ دیکھ رہا تھا، اندھیرا آنے سے ڈر رہا تھا، لہروں کی آوازیں تھم گئی تھی کیونکہ اس دیوانے نے سب کو یہ پیغام دے دیا کہ میں اس زمین کا حقیقی وارث ہوں اور مجھے اس زمین سے کوئی جدا نہیں کرسکتا۔

20 اگست کو سعید بلوچ کا سورج غروب ہوا، دشمن کا گمان تھا یہ قصہ رات کی تاریکی میں ختم ہو جائے گا لیکن اس بزدل دشمن کو کیا پتہ یہ قصے ختم ہونے کیلئے نہیں بلکہ دوبارہ شدت کے ساتھ شروع ہونے کیلئے ہوتے ہیں۔

21 اگست 6 بجکر 27 منٹ پر فدائی سربلند کا سورج نکلا وہ سورج نہیں بلکہ ایک فکر، ایک سوچ، ایک نظریہ ایک نئی امید اور وہ راز جو تین سال تک ایک نوجوان کے سینے میں چھپے ہوئے تھے لیکر نکلا، استاد کی نظریات کو اس باب نے اجاگر کرکے دشمن اور قوم کو واضح پیغام دیا کہ یہ ناختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اسے روکنا قابض ریاست اور اس کے شراکت داروں کی بس کی بات نہیں ہے۔ اب اگر سورج گوادر کے سمندر کو روشنی دیکر آگے بڑھے گا تو وہ روشنی فدائی سربلند کی فکر کو لے کر ساری جگہوں کو یہ پیغام دے گا کہ اس سرزمین کے “زرپہازگ” نیلے زر کو غلامی سے چھٹکارا دینے کیلئے ضرور آئیں گے۔”

جنرل نے جس کتاب کی تخلیق کی، اسکی انتہا آزادی ہے اور انتہا تک پہنچنے کیلئے سربلند جیسے ابواب کھلتے رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں