ارباب ثلاثہ اور سردار عطاء اللہ خان مینگل – منظور بلوچ

651

ارباب ثلاثہ اور سردار عطاء اللہ خان مینگل

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سیاسی قومی جدوجہد کی جدید تاریخ سردار عطاء اللہ مینگل کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

ایڈورڈ سعید دور جدید کے ممتاز علماء کرام میں سے ایک تھے، جن کے مشرق و مغرب سے متعلق افکار نے مغرب کی اکیڈیما میں بھونچال پیدا کیا تھا۔ ان کے بہت سارے تنقیدی تصورات نے فلسطینی جدوجہد سے جنم لیا، ان کا کہنا تھا کہ بیشتر ایشیائی افریقی ممالک میں سامراجیت کی مخالفت کی ابتداء سیاسی مخالفت سے نہیں بلکہ ثقافتی مزاحمت سے ہوئی تھی۔ ایڈورڈ سعید کے اس خیال کے حوالے سے یہ بات بڑی دلچسپی کی حامل ہوگی کہ بلوچستان کی جدید نو آبادیاتی تاریخ میں مزاحمت کی ابتداء کو اگر بالخصوص نواب نوروز خان کی جدوجہد کی صورت میں دیکھا جائے یا شیرو مری کی انکار اور شہزادہ عبدالکریم کے احتجاج اور افغانستان کی جانب مزاحمت میں ہمیں ثقافتی مزاحمت کی صورت نظر آتی ہے۔ یہ ابتدائی مزاحمتیں تھیں جو بلوچ ثقافت سے جڑی ہوئی تھیں۔

جس طرح سے ایڈورڈ سعید کا سب سے بڑا عطیہ ثقافت سے سیاست کو جوڑنا ہے، لیکن انہوں نے ثقافت کو سیاست کے خصوصی رہنماء کے روپ میں سامراجیت کے خلاف پیش کیا۔ اس طور پر بھی دیکھا جائے تو سیلگ ہیریسن کی بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے تحقیق پر مبنی کتاب میں انٹرویو کے دوران بابا مری نے نواب نوروز خان کی جدوجہد کی جانب اسی قسم کا اشارہ دیا تھا۔

نوآبادیات کے حوالے سے ایشیا اور افریقی ممالک میں ثقافت کی مزاحمت اولین گام کی حیثیت رکھتے ہیں تو بلوچستان میں بھی روایت سے جڑے ہوئے نوابوں اور سرداروں کی اولین مزاحمت بھی بلوچ ثقافت کا معاملہ ہی ٹہرتی ہے۔ لیکن جب نیپ کے قیام، ستر کے عشرے کے انتخابات اور ان کے نتیجے میں جو وزارت قائم ہوئی جس کے اولین اور چنیدہ وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو گورنر تھے، جبکہ بابا مری نے نیپ بلوچستان کے صدر ہونے کے باوجود کوئی حکومتی عہدہ نہیں لیا، اور یوں ستر کے عشرے سے مذکورہ تینوں شخصیات کو ارباب ثلاثہ یا اتحاد ثلاثہ کا نام دیا گیا۔

اس اتحاد ثلاثہ میں نواب اکبر خان بگٹی شامل نہیں تھے، گوکہ وہ ایوب خان کے ایبڈو کے تحت نا اہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے عام انتخابات میں نیپ کی کامیابی کیلئے وسائل مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی پر جوش حصہ لیا تھا اور یوں نیپ بلوچستان میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی اور اسلام آباد میں بھٹو حکومت کے نہ چاہنے کے باوجود جے یو آئی سے اتحاد کرکے وزارت قائم کی گئی۔ اس دور کے اتحاد ثلاثہ میں نواب اکبر خان بگٹی شامل نہیں تھے یا ان کو شامل نہیں کیا گیا، دوسری جانب معروف مؤرخ عزیز بگٹی نے اپنی ایک کتاب میں بابا مری، سردار عطاء اللہ مینگل، شہید نواب اکبر بگٹی اور میر غوث بزنجو کی اکٹھ کو چویاری سے منسوب کیا اور اس باب میں انہوں نے نیپ وزارت کے بعد شہید نواب بگٹی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر سوالات بھی اٹھائے تھے، اور اس کتاب کا پیش لفظ کسی اور نے نہیں، بلکہ خود نواب شہید اکبر خان بگٹی نے لکھا تھا اور انہوں نے نیپ حکومت کے خاتمے، نیپ کو کالعدم قرار دینے، نیپ کے قائدین کی گرفتاری اور بلوچستان میں فوج کشی اور اپنی گورنرشپ کے معاملات پر از خود فیصلہ دینے کی بجائے اس ساری صورتحال کو تاریخ اور مستقبل کے دانش وروں پر چھوڑ دیا تھا۔

عجیب اتفاق ہے کہ ابتداء میں جو ارباب ثلاثہ قائم ہوا تھا، اس میں بابا مری، سردار عطا ء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو شامل تھے، جبکہ بعد ازاں یہی اتحاد ثلاثہ 1998ء میں ہمیں بابا مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور شہید نواب اکبر بگٹی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ دونوں اتحاد وقت کے ساتھ ساتھ بکھر گئے، جب سردار عطاء اللہ مینگل کی صورت میں نیپ کی وزارت قائم ہوئی تو سردار مینگل کی ذہانت و بصیرت نے پاکستان میں سٹیٹس کو پر ضرب لگانے شروع کیے، جس کیلئے ایک مثال پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے چیف سیکرٹری کو واپس پنجاب بھجوانا بھی شامل تھا، جس کی میر بزنجو  نے سختی سے مخالفت کی تھی، لیکن جب سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچستان کے چیف سیکرٹری کو واپس پنجاب بھجوایا تو میر بزنجو، وزیر اعظم پاکستان ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ بیرون ملک دورے پر تھے اور یہ بات خود سردار عطاء اللہ مینگل نے میرے ایک سوال کے جواب میں بتائی، جب میں نے ان کی سوانح عمری لکھنے سے متعلق 2014ء میں وڈھ میں ان کی رہائش گاہ میں ان سے ملاقات کی تھی، بلوچستان کے طاقت ور چیف سیکرٹری کو واپس بھجوانے کا اقدام از خود ایک دل چسپ اور معرکہ انگیز واقعہ تھا، جس کی تفصیل میں پہلے بھی اپنے کسی مضمون میں بیان کر چکا ہوں، آگے چل کر کسی اور مضمون میں ان کے ساتھ اپنی ہونے والی اس آخری ملاقات کی تفصیلات بھی بیان کروں گا۔

سردار عطاء اللہ مینگل نے وڈھ میں اپنے مہمان خانہ میں مجھے بتایا کہ جب میر بزنجو واپس آئے تو انہوں نے چیف سیکرٹری کو نکالے جانے والے فیصلہ پر اپنی ناپسندیدگی اور مخالفت کا اظہار کیا تھا، جس پر سردار عطاء اللہ نے انہیں جواباً کہا تھا کہ آپ کی موجودگی میں شاید ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، اس لئے میں نے آپ کے بیروں ملک دورے کو غنیمت جانا اور یہ فیصلہ کیا۔

سردار مینگل اچھی طرح جانتے تھے کہ پالیسی ساز اداروں میں جب تک بلوچ کی نمائندگی نہیں ہوگی اس وقت تک بلوچ بحیثیت قوم استحصال کی چکی میں پستی رہے گی۔

ایک اور معمر بیوروکریٹ جو بقید حیات ہیں، ان کے حوالے سے ہمارے دوست اکرم صاحب جو ریڈیو یونین میں دلچسپی رکھتے ہیں، بہت سی ان کہی باتیں سننے کو ان سے ملیں، مذکورہ سابق بیوروکریٹ نیپ وزارت کے دوران ایک انتظامی منصب پر فائز تھے، ان کا احوال پھر کبھی سہی، کوشش ہوگی کہ اکرم صاحب کے توسط سے ان سے ملاقات ہو اور ان کے سینے میں جو کچھ موجود ہے، اس کو محفوظ کرکے تحریری صورت میں سامنے لایا جا سکے۔ ان کے توسط سے بھی جو باتیں سننے کو ملیں، وہ یہ تھیں کہ بہت سارے معاملات پر میر بزنجو اور سردار مینگل کے فیصلوں میں اختلافات پایا جاتا تھا۔

دیکھا جائے تو میر غوث بزنجو کے پاکستانی سیاست کے حوالے سے ذہنی اور عملی سروکار کچھ اور تھے، اور سردار عطاء اللہ مینگل کے اسٹیٹس کو کے حوالے سے خیالات اور عملی اقدامات مختلف تھے۔

یہی وہ وجہ ہے کہ آج پارلیمان کی سیاست کرنے والی قوم دوست کہلائے جانے والی سیاسی جماعتیں، کسی نہ کسی مرحلے پر میر غوث بخش بزنجو کو اپنا رہبر تسلیم کرتی ہیں، اور ان کے نام کے سہارے اپنی پارلیمانی سیاست کو جائز قرار دینے کی کوشش میں مصروف عمل رہتی ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ 88ء کے انتخابات میں انہی قوم دوست پارٹیوں نے (جب وہ تقسیم کا شکار نہ ہوئی تھیں) میر غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی کو شکست دلوائی اور میر غوث بخش بزنجو قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے منظور گچکی اور سردار عارف جان محمد حسنی کے مد مقابل ہار گئے تھے، اور آج کی تاریخ میں منظور گچکی اسی پارٹی میں شامل ہیں، جو میر غوث بخش بزنجو کا دم بھرتی ہے۔

نیپ کی وزارت کے دوران بابا مری، سردار عطاء اللہ مینگل کی اسٹیٹس کو مخالفت سے بہت آگے کی سوچ رہے تھے، جس کا بعد ازاں حیدر آباد سازش کیس کے خاتمے کی صورت میں اظہار بھی ہوا، جب میر بزنجو اور بابا مری الگ الگ طور پر شال پہنچے تھے۔ دوران اسیری دونوں رہنماوں کے درمیان بلوچ سیاسی قومی نجات کے مسئلہ پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے، جس کے بعد بابا مری نے کبھی کوئی سیاسی جماعت بنائی اور نہ ہی کبھی وہ پلٹ کر پارلیمان کی طرف آئے۔

البتہ 1998ء میں انہوں نے سردار عطاء اللہ مینگل کے ہمراہ بگٹی ہاؤس شال میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کے ساتھ ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں، اس کا احوال ہم نہیں جانتے، ہمیں یہ بھی ٹھیک طرح سے علم نہیں کہ یہ ایک رسمی ملاقات تھی یا اس میں مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل کے حوالہ سے اشتراک یا اکٹھ کی کوئی بات ہوئی تھی؟ جن لوگوں کو اس بیٹھک کے بارے میں معلومات ہیں، ا ن کے خیالات سے تحریری طور پر ہم آگاہ نہیں ہیں، حیدر آباد سازش کیس کے خاتمے، ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد بابا مری پہلے فرانس اور بعد ازاں قبیلہ سمیت افغانستان جلا وطن ہو گئے تھے اور سردار عطاء اللہ مینگل نے لندن میں جلا وطنی اختیار کی، اس جلا وطنی کے بارے میں جب میں نے وڈھ میں ان سے ہونی والی آخری ملاقات میں پوچھا تھا کہ آپ اور بابا مری کی جلا وطنی کے باعث بلوچ قوم پر ایک جعلی طبقہ کی سیاست کو مسلط کر دیا گیا، آپ لوگ بلوچستان میں ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا، اس پر ان کا کہنا تھا کہ ضیا ء الحق نے ان دونوں کو راستے سے ہٹانے کا پروگرام بنایا تھا، اس لئے انہوں نے جلا وطنی اختیارکی۔

البتہ میر غوث نخش بزنجو، بلوچستان میں رہے، پارٹی بنائی، ایم آر ڈی کی تحریک میں پیپلز پارٹی کا ساتھ اس شرط پر دیا کہ وہ (بے نظیر بھٹو) اقتدار میں آنے کے بعد صوبائی خودمختاری کا مسئلہ حل کریں گے، لیکن پیپلز پارٹی نے ان کو دھوکہ دیا۔

صوبائی خود مختاری سے متعلق ایک اور کوشش شہید نواب اکبر بگٹی نے نواز شریف کے ساتھ ایک تحریری معائدے کی صورت میں کی، جو آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے، لیکن بے نظیر بھٹو کی طرح نواز زشریف نے بھی دھوکہ دیا۔

اس سارے تناظر میں سردار عطاء اللہ واحد شخصیت تھے، جو بابا مری اور میر بزنجو کے درمیان پل کی حیثیت رکھتے تھے، میر بزنجو ان کے اختلاف اور سخت سیاسی موقف پر بھی ان کو ہمہ وقت قبول کرنے پر تیار تھے، اور ان کے سخت بیانات پر بھی وہ مسکرا کر جواب دیا کرتے تھے۔

دوسری جانب بابا مری کو جن پر سب سے زیادہ اعتماد تھا، وہ سردار مینگل کے سوا کوئی اور نہ تھے۔

1993ء جب انہوں نے اپنے سرکل اسٹڈیز اور لیکچرز کا آغاز کیا تھا، ان دنوں صحافت سے عملی وابستگی کی وجہ سے میرا اور کاظم مینگل (آج کل شام میں بی بی سی کے بیورچیف) کا ان کے ہاں جانا ہوتا تھا، ایک بار مجلس کے دوران بابا مری نے جس بھروسے کا اظہار سردار عطاء اللہ مینگل کے حوالے سے کیا تھا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ حالانکہ بابا مری کو کسی اور پر اتنا بھروسہ اور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کم ازکم میں کبھی نہیں دیکھا۔

اتحاد ثلاثہ (بابا مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بزنجو پر مشتمل تھا) سے متعلق ہمیں کافی ساری معلومات میسر نہیں ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان معاملات پر لکھا نہیں گیا، اور نیپ وزارت کے دوران اتحاد ثلاثہ کے بنیادی اختلافات کیا تھے؟ اس بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔

شہید نواب اکبر بگٹی کے ساتھ نیپ نے بیگانگی کا جو اظہار کیا، اس کا اصل سبب کیا تھا؟ ہم نہیں جانتے، ہوسکتا ہے کہ بعض قریبی اصحاب کو کچھ معلومات ہوں، لیکن اس حوالے سے بھی نہ ہونے کے برابر لکھا گیا ہے۔

اس دور کے شاہدوں میں صورت خان مری، انور ساجدی، ڈاکٹر حکیم لہڑی اور دیگر جو بقید حیات ہیں، ان کو علم ہو، لیکن ہم سمیت ہماری نئی نسل کو حقائق معلوم نہیں ہیں۔

اسی طرح پہلے اتحاد ثلاثہ کے اختتام اور دوسرے دور کے ارباب ثلاثہ کے بارے میں بھی ہماری معلومات بہت کم ہے۔

1996ء میں جب سردار مینگل نے بی این ایم (مینگل) اور پی این پی کو ساتھ ملا کر بلوچستان نیشنل پارٹی قائم کی، تو اس وقت بابا مری یہیں تھے، ایک نئی پارٹی کے قیام اور اس کی لیڈر شپ کے حوالے سے بابا مری اور سردار مینگل کے درمیان کیا باتیں طے ہوئی تھیں؟ یا نہیں ہوئی تھیں؟ اس حوالے سے بھی تحریر کے محاذ پر خاموشی ہے، بہر حال دونوں رہنماؤں کے درمیان اس دور میں تعلقات مثالی تھے اور یہ ممکن نہیں کہ جب دونوں رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوں اور سیاسی بات چیت نہ ہو، یہ بہر طور ممکن نہیں۔

بعد ازاں شہید نواب اکبر بگٹی کی جانب سے سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیا اور اکثریت کے حصول کیلئے جے یو آئی ف کو اتحادی بنانے میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ لیکن یہ اتحاد اور قربت (بی این پی اور جے ڈبلیو پی) کے درمیان دیر پا ثابت نہیں ہوسکی۔ بی این پی نے جے ڈبلیو پی کو حکومت سے نکالا اور وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے اس بیان کی اب بھی باز گشت سنائی دیتی ہے کہ”میں کمبل کو چھوڑتا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔“ بعد ازاں بی این پی کا مسلم لیگ سے اتحاد، مسلم لیگ کی تحریک اعتماد اور بی این پی کی تقسیم اب تاریخ کا حصہ ہیں۔

سردار عطاء اللہ مینگل کے انتقال کے بعد جس طرح سے بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ کا بار بار یہ کہنا کہ سردار مینگل بی این پی کے لیڈر تھے، دراصل یہ نہ صرف پوری قوم بلکہ سردار مینگل کی اپنی شخصیت کے ساتھ بھی بہت بڑی نا انصافی ہے، جس کا جواب اسد بلوچ جو جام حکومت میں وزیر ہیں، بلوچستان اسمبلی میں اظہار خیال کے دوران دیا تھا کہ سردار مینگل پوری قوم کے لیڈر تھے، ان کو ایک پارٹی کے ساتھ محدود کرنا زیادتی ہے۔

سردار مینگل بلوچستان کی جدید سیاست میں کم از کم سات عشروں تک سرگرم عمل رہے، اور یہ ایک بہت بڑا عرصہ ہے، لیکن ان سے متعلق نیپ کی وزارت، اتحاد ثلاثہ میں اختلافات، بی این پی کے قیام سے لے کر بعد ازاں بابا مری سے دوری ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات نئی نسل اور بلوچ قومی سیاسی جدوجہد کیلئے ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔

لیکن ہمارا المیہ دیکھیے کہ ہمارے پاس تحریری صورت میں ان سوالوں کے جوابات موجود نہیں ہیں، قیاس اور تجزیے تو کئے جاسکتے ہیں لیکن اصل واقعات تک رسائی کا آخری ذریعہ کوئی اور نہیں، خود سردار عطاء اللہ مینگل تھے، ان کی سوانح عمری کی صورت میں بلوچ قومی سیاست کے نشیب و فراز کے بہت سارے معمے حل ہوسکتے تھے، یا ان کے تناظر میں بلوچ قومی سیاسی جدوجہد کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ نظر مل سکتا تھا، لیکن یہ المیہ سے کم نہیں کہ ان کی سوانح عمری لکھی نہیں جاسکی، اس بارے میں جو کچھ کہا گیا، وہ پورا سچ نہیں ہے، آدھا سچ ہے؟

جس پر میں ضرور لکھوں گا کہ کیونکر ان کی سوانح عمری نہیں لکھی جاسکی َ اس کے پس پشت کیا عوامل تھے؟ اور وہ کون تھے جو ایسا ہونا نہیں چاہتے تھے، اور اس میں ان کو کامیابی بھی ملی۔

البتہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ سردار عطاء اللہ نے کہا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا اور ہماری قوم سچ سن نہیں سکتی، ان کے اس ایک جملے میں پورا ایک زمانہ، ایک طویل عہد پنہاں نظر آتا ہے۔

سردار عطاء اللہ مینگل کو امریکہ میں، سندھی قوم پرستوں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا تاحال بلوچستان میں اب تک ایسی کوئی ریفرنس منعقد نہیں ہوسکی ہے۔

سردار مینگل کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں ایک نام بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر وحید بلوچ کا بھی ہے، جن کا یہ جملہ دل کو لگتا ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل ایک سچے انسان تھے، اس لئے سیاسی تنہائی ان کامقدر بنی۔ باقی یادیں اور ان کی باتیں، پھر کبھی سہی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleدنیا بھر میں واٹس ایپ ، فیس بک اور انسٹاگرام کی سروس متاثر
Next articleبلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی، بی این ایم کا یونان میں احتجاجی مظاہرہ
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔