کاش! درد آخری رقص ہوتا
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ آئی مسنگ پرسن کے کیمپ پہ بیٹھی اور سورج غروب ہونے پر چلی جائیگی۔سورج ڈوب جائے گاہر روز ہی ڈوب جاتا ہے اور آج بھی ڈوب جائے گا کیا سورج اس کا درد بھی اپنے ساتھ لے ڈوبے گا؟
سورج طلوع ہوگا اور ڈوب جائے گا،ڈوب جائے گا اور طلوع ہوگا،
پر اس کا غم نہ ڈوبتا ہے۔ نہ پہاڑوں کی اُوٹ لے کر چھپتا ہے۔ نہ نیلگوں پانی کی نظر ہوتا ہے۔ پر اس کا غم ایک سیاہ رات بن کر اس پر ٹھہر سا گیا ہے۔ وہ چیختی ہے، چلا تی ہے، روتی ہے، ماتمی آنکھیں لیے تکتی ہے۔ پر درد نہیں جاتا، درد تو دودھ پیتا بچہ بن کر اس کے ساتھ ہو لیا ہے اب وہ کوئٹہ سے لیکر کراچی اور کراچی سے لے کر اسلام آباد تک دردوں بھرا سفر کرتی ہے پھر بھی درد نہیں جاتا
اس وقت وہ تاریخ کی چیخ بن کر رہ گئی ہے پھر بھی درد اس کے ساتھ ہے۔
اسے ایسا کوئی داروں نہیں ملتا جو اس درد کو دور کر سکتے
درد نے اس کا دامن راہ چلتے بچے کی ماند آٹھ سال پہلے تھاما تھا جب اس کے بال سیا ہ اور آنکھیں بھو ری تھیں اب اس کے سیاہ بالوں میں چاند نماں بال اور آنکھیں دکھوں سے جھک گئی ہیں پھر بھی درد دھونہ بن کر نہیں اُڑتا۔
اسے محبت نے مسافر بنا دیا ہے۔ وہ درد لیے صوفیوں کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں بھٹکتی رہی ہے۔ اگر محبت نہ ہو تی تو وہ کملی ہی کیوں ہو تی؟اگر محبت نہ ہو تی تو وہ مسافر ہی کیوں ہوتی؟اگر محبت نہ ہو تی تو اس کی آنکھوں میں درد سے ڈورے کیوں پڑ جا تے؟اگر محبت نہ ہو تی تو وہ ننگے پیر سفر کیوں کرتی؟اگر محبت نہ ہو تی تو وہ مسنگ پرسن کا کیمپ کیوں جوائن کرتی؟اگر محبت نہ ہو تی تو وہ اپنوں کا پتا کیوں پو چھتی؟اگر محبت نہ ہو تی تو دل!درداں دی ماری علیل ہے کیوں بن جاتا؟اگر محبت نہ ہو تی تو وہ گھر چھوڑ کر ان راہوں گلیوں پر کیوں چلتی جن راہوں گلیوں پر اپنوں کا پتا تو نہیں پر دل کہتا ہے اسے راہ سے گزر کر جانا ہوگا!اگر محبت نہ ہو تی تو جوتیاں کیوں سفر میں پھٹتیں؟اگر محبت نہ ہو تی تو کیوں پیر دھول آلود ہو تے؟اگر محبت نہ ہو تی تو کیوں مانگ سندور کے بجائے دھول آلود ہوتی رہتی؟
اگرمحبت نہ ہو تی تو کیوں مائیں بچیاں بن جا تیں اور بچیاں مائیں!اگر محبت نہ ہو تی تو کیوں بچیاں وقت سے پہلے بڑی بن کر ماتمی ماؤں کو دلاسہ دیتی نظر آتی؟اگر محبت نہ ہو تی تو کیوں پہاڑوں کی اُوٹ میں کچے مکان چھوڑ کر شہرِ بے کراں کے شور میں پریشان دل سے رُل رہی ہو تیں؟اگر محبت نہ ہو تی تو کیوں مائیں ہاتھوں میں بینر لیے اپنے مغوی بچوں کا پتا پوچھ رہی ہو تیں؟
اگر محبت نہ ہو تی تو مغوی بھائیوں کی بہنیں اور مغوی باباؤں کی بیٹیاں کچھ دن نہیں بس کچھ گھنٹے اداس کیمپوں پر بسر کرتیں اور لوٹ جا تیں پر میں تو کیا کوئی بھی نہیں جانتا کہ اسماء نے اپنے بابا اور بھائی کے درد کو آنسوؤں میں کتنا بھایا ہے؟ اسماء نے اپنے بابا اور بھائی کے لیے کتنے دن سیاہ کیے ہیں اب تو ان دنوں کا حساب ماما قدیر کو بھی یاد نہیں جو دن ماماقدیر نے اداس کیمپ میں بیٹھ کر گزار دیے۔
اگر محبت نہ ہو تی تو کوئی ماں اپنے گم شدہ بیٹوں کے لیے ماتم نہ کرتی!
اگر محبت نہ ہو تی تو ان پڑھ مائیں یو اپنے گھر چھوڑ کر کراچی کی گرمی اور حبس میں پریس کلب کے در پر نہ بیٹھتیں! اگر محبت نہ ہو تی تو مائیں آپ ہی ماتم اور آپ ہی ماتمی لباس نہ بن گئی ہو تیں۔
اگر محبت نہ ہو تی تو اسماء کے ہاتھوں میں کیوں اپنے بابا اور بھائی کی تصویر ہو تی اور وہ سب سے ان کا پتا پو چھ رہی ہو تی؟جن کو گم ہوئے آٹھ سال ہو گئے ہیں
اس وقت اسماء کراچی پریس کلب کے در پر سوالیہ نشان (؟)بن کر بیٹھی ہے
اور جو اس کے ہاتھ میں اپنے بابا اور بھائی کی مٹی پرانی تصویر ہے اگر کوئی اس مٹتے ناموں والی تصویر کو پڑھنے دیکھنے کی کوشش کرے تو شاید ان مٹتی تصویروں میں ان کو ایسے لکھے الفاظ نظر آئیں کہ
”مر بھی جائیں یار گر
پر صحبت زندہ رہے گی
اور تجھ سے
یہ محبت زندہ رہے گی!“
درد اپنی جگہ۔درد کوکوئی داروں نہیں ملتا اپنی جگہ۔سورج ڈوب جاتا ہے۔سورج طلوع ہوتا ہے
سورج ہر روز ڈوب جاتا ہے،سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے اپنی جگہ۔سورج دردوں کو پہاڑوں کی اُوٹ میں نہیں لے جا تے۔دردکو نیلگوں پانی میں نہیں بہایا جاتا اپنی جگہ۔پر پھر بھی بلوچ ماؤں بیٹیوں کی آنکھوں کی خشک سالی نہیں جا تی!
کیوں؟اس لیے کہ محبت میں آنکھوں میں خشک سالی نہیں آتی
”محبت کی کتنی بھی قحط ہو
پر آنکھوں میں خشک سالی
اک منٹ بھی نہیں جا تی
محبت سے بھری آنکھیں ہر وقت اشک ِ رواں رہتی ہے
اس وقت اسماء بلوچ کی آنکھیں میں بھی اشک ِ رواں جا ری ہے اور وہ اپنے ہاتھوں میں اپنے بابا اور بھائی کی تصویر لیے آپ اک تصویر بنی بیٹھی ہے کوئی تو جائے پریس کلب کے در پر اور دیکھ سکے اس تصویر کو جس تصویر کی تحریر یہ ہے کہ
”کاش!درد آخری رقص ہوتا“
اگر درد آخری رقص ہوتا تو میں تمام مزاروں کے صوفیوں کو جمع کرتا اور لے جاتا وہاں
جہاں اس وقت اسماء بلوچ درد کی تصویر بنی ہوئی ہے اور تمام صوفی آخری رقص کرتے اور اسماء کا درد دھونہ بن کر ہوا میں اُڑ جاتا
پر!!!
ایسا بھی نہیں
کاش!درد آخری رقص ہوتا
”یہ رقصِ رقصِ پہیم
یہ رقصِ آخری ہے
یہ رقص دار پر بھی
منصور نے کیا تھا
یہ رقصِ قونیا میں
درویش نے کیا تھا
تلوار ناچتی ہے
ہر بار ناچتی ہے
یہ رقصِ بے لباسی
یہ رقصِ سرمدی ہے
اس رقص میں ابھی چند
یہ رقصِ دلبری ہے
یوں یار کو منانے
اس رقص میں ہے بلھا
اس رقص میں قلندر
یہ رقص خانقاہی
یار کو ہے سجدہ
اور رقصِ بارگاہی
یہ رقصِ روز اول
یہ رقصِ روز ِ آخر
بس یار کی گلی میں
یہ رقص آخری ہے
یہ رقص آخری ہے!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں