نوآبادیاتی سیاست – ضمیر بلوچ

691

نوآبادیاتی سیاست

تحریر: ضمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم کا مسئلہ نہ انصاف کا، نہ صوبائی خود مختاری کا، نہ ہی انقلاب کا مسئلہ ہے ، نہ ہی بحیثیت پاکستانی شہری بنیادی حقوق کا جہاں تک آج کے شور و غوغا کا تعلق ہے وہ relative justice کا مسئلہ ہے مگر بلوچ قوم کا کیس بلوچ و بلوچیت کے بنیاد پر absolute justice کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جیسے کہ کوئی پرندہ اپنے بنائے ہوئے گھونسلے کے بجائے کہیں بھی چین سے جی نہیں سکتا اور نہ ہی آزادی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ ،relative justice کا تعلق بنیادی طور پر اس ذہانت سے جسے احساسی محرومی کے دلدل میں دھکیلا گیا ہو اور اسی کو بنیاد بنا کر تحریک کو ایندھن فراہم کرنا گو کہ یہ تحریک و عمل اپنے ہی پیر پہ کلہاڑی مارنے جیسا ہے (ہائی ویز بنائے جائیں، یونیورسٹیوں کا قیام ممکن بنایا جائیں، اسکالرشپس بحال کی جائیں، سی پیک کے اصل مالک کو اسکے حقوق دیئے جائے، گھوسٹ اسکول و ٹیچر برطرف ہوں، روزگار کا مسئلہ، بنیادی سہولیات کا مسئلہ، بجلی، پانی) ان تمام نعروں و مطالبات کا تعلق کسی ملک کے شہری ہونے کی اور اسکی شہری کی حقوق کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں، مگر بلوچ کا مسئلہ روزِ اول سے بحیثیت شہری کا نہیں بلکہ اپنے شناخت ( بلوچ و بلوچیت) کے بقاء کا مسئلہ اس گلزمین کا مسئلہ ہے جس کی خاطر نوری نصیر خان سے لیکر نواب مری تک بلوچ و بلوچیت کی روح کے جاننے والوں نے جدوجہد کی۔ اس شور و غوغے کا تعلق اجتماعی طاقت کو ایک ایسے اندھیرے میں دھکیلنا ہے جو کہ بلوچ و بلوچیت کے مزاج کے منافی ہونے کہ ساتھ ذہنی عیاشی ( وقتی لذت) کی خاطر کی جارہی جسے گونجتی نعروں کے فریب میں ڈال کر اصل دشمن و حقیقی مسئلے سے روگردانی کرنا ہی ہے۔ جب کہ ہر فرد کے اوپر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصل دشمن و حقیقی مسئلہ کیا ہے ؟ مگر وقتی طور پر ہجوم کو دیکھ کر انقلابی گیت لگا کر انصاف انصاف کی آہ و زاریاں کرنا اپنی کمزوری و حاکمیت کے دعویداروں کو مزید اس گمان میں رکھنا کہ واقعی آپ حاکم ہو اور ھم مظلوم ہیں یہ درحقیقت اس مزاج سے متضاد ہے جسکی خاطر بلوچ و بلوچیت کی بنیاد کھڑی ہے۔ کہیں بھی کسی بھی قسم کی حاکمیت کو قبول کرنا ایسا ہے جیسے جنگ سے پہلے ہتھیار پھینکنا۔

موجودہ سرفیس پولیٹکس اور کولونائزڈ/اپاہج ذہن:

سیاسی شور جو کہ نوآبادکار و سامراج کی پیدا کردہ ایک طریقِ سیاست ہے۔ جس میں قومی مفادات کے کُل کے برعکس سطحی معاملات کو آواز بنا کر اصل مسئلے کو غائب کردینے والی ذہنیت کار فرما ہوتی ہے۔جس میں مسائل پیدا کرکے نوآبادیاتی باشندوں کو اُن کے حل کے لئے ایک ایسی راہ تفویض کی جاتی ہے۔جس سے نوآبادکار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا بلکہ نوآبادیاتی نظام کے بقا کے دن بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ نوآبادیاتی باشندہ اُن پیدا کردہ طریقہِ سیاست کو فخریہ اختیار کرتے ہوئے اسی میں پناہ ڈھونڈنے اور نوآبادکار کے ساتھ مفاہمت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ باہر کے لوگوں کیساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش سے قومی ضمیر کو ختم کردینے کی تگ و دو کرتے ہیں۔

بلوچ قومی سیاست میں طلباء سیاست کو کُل قومی سیاست بنا کر پیش کرنے کی بھونڈی سی کوشش ہر وقت ہوتی ہے۔ ہم نے بلوچ طلباء سیاست کا ایک جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ بقول بلوچ دانشور صورت خان مری بی ایس او شروع دور میں آزادی کے لئے برسرِ پیکار تنظیم کے ماتحت تھی۔لیکن جب اسے پہلی بار نیپ کی سیاست میں گھسیٹا گیا تب سے لیکر آج تک بی ایس او کے کارکنان کسی نہ کسی سیاسی دکان ( آزادی پسند تنظیم و پارٹیوں اور پارلیمنٹ پرست پارٹیوں) کے منجن بیچنے میں مصروف عمل ہے۔ جہاں ایک طرف سیٹھ لوگوں کی دکانداری چلتی ہے تو وہیں بی ایس او کے کارکنان کا بھی خرچہ پانی کا انتظام ہو جاتا ہے۔شور کو بڑھاوا دینے کی شروع دن سے ایک ہی مقصد ہے کہ حاضری لگ جائے چاہے یہ شور نوآبادیاتی طریقہ سیاست (جلسے/جلوس وغیرہ) کے زریعے ہو، یا بلوچ قومی مزاج کے برعکس حاکم سے التجا کی شکل ہو۔

ماضی سے لیکر موجودہ وقت تک سنگل قومی پارٹی کے نہ ہونے کے سبب ، بی ایس او بھی ،(آزاد) کا لاحقہ لگا کر آزاد، (متحدہ) کا لاحقہ لگا کر نہ ہی متحد،( پجار) کا لاحقہ لگا کر بھی کبھی بلوچ قومی پجار کے کسی کام نہ آسکی بلکہ ٹوٹ کر سرخ پجار کی شکل میں ڈیتھ اسکواڈ کو پیاری ہوگئی۔ جہاں ایک طرف مجموعی طور پر تمام دکاندار اپنی اپنی دکانیں سجانے کی کوششوں میں سنگل پارٹی کے قومی خواب سے دستبردار ہیں تو وہیں بی ایس او کے نوجوان بھی ان دکانوں کو پونچہ،جھاڑو لگا کر قومی زمہ داریوں کی ادائیگی میں حصہ ڈالنے پر فخر سے اتراتے پھرتے ہیں۔ نوآبادیاتی طریقہ سیاست کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل آج کل میڈیکل سیٹوں کے نام پر ہونے والی شور برائے شور ہے۔

بیشتر ماہر نفسیات و فلسفی ( تجربیت پسندوں) کے ہاں انسانی علمیات کا تعلق و بنیاد اسکے معروضی حالات و اندازے کے مطابق طے پاتے ہیں اور ریاست اور اسکے عیارانہ حربے ہمہ وقت معروضی حالات کو اپنے ہی سانچے و مفادات کے تحت چادر میں لپیٹنے کی کوشش کے ساتھ ہر نئے نئے ہتھکنڈے کو استعمال میں لاکر مجموعی طور پر قومی ( اجتماعی) طاقت کو معروضی حالات کے برخلاف وقتی (Short time) مسائل میں الجھا کر قومی طاقت کو منتشر کرکے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے گراؤنڈ اوپن کرکے اپنے اصل چہرے کو مسخ کرنے کے ہمراہ قومی مسئلے کو قومی مزاج کے برعکس اس حل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر بلوچ مزاج و بلوچ نفسیات کے پہلوؤں کو دیکھا جائے جسکے متعلق مختلف دانشوروں و anthropologist کی رائے موجود ہے کہ بلوچ قوم کی سیاسی و سماجی خاکے میں کسی بھی قسم کی حاکمیت چاہیے ہو کسی فرد کی ہو یا کسی بھی ریاستی ادارے کی، وہ قابلِ قبول نہیں کہ بلوچ قومی مزاج کسی بھی قسم کی حاکمیت کو خاطر میں نہ لاکر اپنے فطری مزاج کے تحت مزاحمت کا راستہ اپناتا ہے۔ اسکی مثالیں تاریخ میں ہزاروں ملیں گی۔ مجموعی طور پر نعروں کی گونج لذت حاصل کرنا اس مجموعی مزاج کے منافی ہے جس کے لئے سامراج نے خود ہی تخلیق کردہ مسائل دیکھ کہ اس میں الجھائے رکھنے کے لئے اس مزاج کو ختم و مسخ کرنے، حقیقی مسئلہ کو دھندلا کرنے، انصاف و برابری جو کہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی کونے میں عملی صورت میں وجود نہیں رکھتا۔ کالونیل سوسائٹی میں ہر وہ حربہ جو ریاست و اسکے مفادات کے تحفظ کے لئے موزوں ترین اسی کی نقالی (mimicry) کروائی جاتی ہے۔ جہاں تک نوآبادیاتی نظام کے سماجی و سیاسی اثرات کا تعلق ہے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کا نوجوان اپنے بلوچ ہونے پر نازاں نہیں بلکہ اسکے ہمراہ سامراج کی دی ہوئی انسان و انسانیت کے نام نہاد تقاضوں میں خود کو ڈھالنے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے ۔

فینن نوآبادیاتی نظام کے اثرات پہ لکھتے ہوئے اس دانشور طبقے کی جانب اشارہ کرکے کہتا ہے جو شہری زندگی گزارنے کے لئے خود کو نوآبادکار کی طرح بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہتا اس دانشور طبقے کے بمقابل دیہاتی لوگ اپنے کلچر و مزاج کے مطابق اپنے رسم و روایت کو بخوبی و احسان طریقے سے نبھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا بلوچ نوجوان ترقی و لبرل ازم کے اصطلاحات میں گم ہوکر اسی زبان میں بات کرتے ہیں جو ریاست کی ہے مثلاً آج بلوچیت کا لفظ ہمارے کسی بھی بیانات میں نظر نہیں آتا۔ ایک دور تھا جب بلوچ لیڈران و دانشوران کی زبان میں بلوچ کے ہمراہ بلوچیت کا ورد ہوا کرتا تھا۔ آج کے تنظیمی لیڈران و نام نہاد دانشوران بلوچ کے ہمراہ بلوچیت کو لکھتے ہوئے اس طرح ہچکچاتے ہیں جیسے کسی آقا کی خوشنودی حاصل کررہے ہوں۔

بلوچ سماجی، سیاسی و عسکری خاکوں کی بنیاد ہی بلوچیت ہے مگر آج نام نہاد انسانیت کے لفظ نے بلوچیت کی جگہ گھیر رکھی ہے آج کا نوجوان بمشکل یہ سوچنے و سمجھنے کی کوشش کرتا ہوگا کہ آخر کیوں ہم اپنے لفظوں سے بیگانہ ہوتے جارہے ہیں۔ کسی بھی شئے کا وجود اسکی ماہیت ( essence) پر کھڑا رہتا ہے بلوچ کا ہونا اس وقت ممکن ہے جب اسکی ماہیت( بلوچیت) کا عملی شکل ممکن ہو۔

نقالی کی تاریخ دیکھی جائیں تو اس لفظ کا سب سے پہلے استعمال افلاطون نے کیا تھا جب افلاطون کہتا ہے کہ یہ تمام چیزوں جو ہمیں نظر آرہی ہے یہ تمام کے تمام ہمارے ورلڈ آف آڈیاز کی نقالی ہے۔ اس نقالی کی طاقت کا اندازہ اس وقت بخوبی لگایا جاسکتا ہے جب کسی شخص کو یہ معلوم ہوسکے کہ کیا کیا چیزیں اسکی اپنے بنیاد و اساس سے تعلق رکھتی ہے۔ اس نقالی کی بابت Homi K bhabba لکھتے ہیں اکثر شہری دانشوران کے ہاں اپنے تصورات و نظریات کی فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب کوئی عقلمند سقراط آخر اپنے ہی زبان و بیان میں ویسٹ ( سامراج) کی زبان میں بات کرنے لگتا ہے حاکمیت کو قابلِ قبول بنا کر بھیک مانگنے کی کوششیں کرتا ہے جو کہ اس قوم کی اپنی ہی فطرت کے خلاف قانون ہیں۔ حبیب جالب و فیض احمد فیض کے سرخ انقلاب کے گیت لگا کر لاہوری طرزِ سیاست و نعروں میں سمیٹ کر اسی اصل مسئلے کو ٹھیس پہنچانے جیسا ہے۔

نوآبادیاتی دور میں شہر اس لئے تعمیر کی جاتی ہے کہ (کالونیزڈ ) قوم کو اپنے ہونے ( being ” بنیاد” جو کہ بلوچیت کی بنیاد پر ممکن ) نام نہاد ترقی، انسانیت، ماڈرن ازم و لبرل ازم کے اصطلاحات میں پھنسا کر اپنے وجود ( بلوچ و بلوچیت) کو قبائلی، قدامت پرست و تنگ نظری کے لیبل لگا کر خود کو ماڈرن بلوچ ثابت کرنا جسکے قول و فعل میں تضادات جو تقسیم در تقسیم کی بنیاد بنتی جارہی ہیں۔

شہری نام نہاد سیاست ( دکانداریوں) کے اثرات اتنے حد تک سرایت کرچکے ہیں کہ اب نام نہاد (لیڈران صاحب و صاحبان) لبرل ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھنے کے ہمراہ دکانوں ( تنظیموں) میں عیاشیوں کی بازار گرم کرکے قومی کاز و قومی عمل کا نام دینا اسی کالونیل ذہانت کی نشاندہی کرتا ہے جس کا بنیادی مقصد ( کالونائزڈ قوم) کی مزاج و طبیعت ( بلوچ و بلوچیت) کے منافی اعمال و نظریات کو پروان چڑھانا ۔ وجود کو اسکے essence سے دور کرنا ہی ہے۔ اسکے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہروں میں رہنے والے( سنگت و کامریڈ) کے اخلاقی اقدار دیکھنے و سننے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج ہمارے سماجی و سیاسی اقدار ہمارے اپنے نہیں بلکہ نقالی کی بنیاد پر ہم تک آں پہنچے ہیں۔

کئی لاہوری لباس زیبِ تن کئے ہوئے ہیں تو کئی ویسٹ کی بولی، سیاسی معیارات کو ( ویسٹ و امریکی) میثاق بنا کر بجائے اسکے سیاسی معیار ہمارا اپنا ہوتا مگر کیا کریں developmental propaganda ہمارے رگ و پے اتنا سرائیت کر چکا ہے کہ اب ہمیں اپنے ہر مرض کا علاج وہی سے نظر آنے لگا۔ حالانکہ بلوچ قوم کی سماجی و سیاسی ارتقاء کے مراحل کو تقابلی جائزے و مطالعے میں دیکھا جائیں تو ہر وہ طریقہ و عمل اپنے آپ میں اسکا حل دینے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ مگر نوآبادکار کی پالیسیاں اس حد تک کامیاب ہوچکی ہے کہ اب ہم خود ہی خود کو backward کہتے ہیں قبائلی کہتے ہیں جاہل، ان پڑھ گوار کہتے ہیں۔ قبائل کہنے والوں کو اتنا تک علم نہیں کہ قبائل ایک منظم تنظیم کا نام ہے اور قبائل کے جو معنیٰ anthropologist لیتے ہیں اس میں ایک نسل کی بات کی جاتی ہے مگر بلوچ کے تمام قبائل خود کو بلوچ کہنے میں کبھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ وہ زبان ہے جو ہمارے نام نہاد لیڈران ( دکاندار) اپنے بیانات و سیاسی گیان بانٹتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں