تم میری آخری محبت ہو .محمد خان داؤد

228

تم میری آخری محبت ہو

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ سفر بھی ہے، وہ مسافر بھی ہے، وہ درد بھی ہے، وہ درمان بھی ہے، وہ آنکھ بھی ہے، وہ آنسو بھی ہے، وہ دکھ بھی ہے، وہ دکھ پررکھا جانے والا مرہم بھی ہے، وہ وعدہ بھی ہے، وہ دلاسہ بھی ہے۔ وہ ہجوم بھی ہے، وہ اکیلا بھی ہے۔ وہ احتجاج بھی ہے، وہ صدا بھی ہے۔وہ دعا بھی ہے،وہ چیخ بھی ہے۔

وہ درد کا اکیلا احتجاج ہے، وہ ایسا آئینہ ہے جس میں مائیں آکر اپنے درد دیکھتی ہیں۔ وہ دکھوں کی سیمفنی بھی ہے، وہ ردالی بھی ہے۔وہ اداس شاموں کا آسرہ ہے۔ایسی شام جس شام پر دکھوں کی رات چھا جائے۔اسے جتنا سفر کرنا تھا اس نے کیا۔پر اپنی طاقت سے بڑھ کر کیا۔کون بوڑھا سینکڑوں کلو میٹر چلتا ہے پر وہ چلا ہے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آبا دکے کچے راستے اس بات کے گواہ ہیں کہ ان راستوں کا دامن پکڑے کوئی تو چلا تھا۔آج بھی اگر کوئی ان راستوں پر چلتے تو تلاش کر سکتا ہے ان پیروں کے نشانوں کو جو اپنوں نے کیے اپنوں کی تلاش میں،ان راستوں میں وہ نشان سب سے عیاں ہونگے جو کانپتے پیروں سے کیے گئے۔لرزتے ہاتھوں سے کیے گئے۔اشک بار آنکھوں سے کیے گئے اور خاموش زباں سے کیے گئے۔وہ راستے اور وہ سفر ایسا نہ تھا جن کے لیے کہا جاتا ہے
”۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کے راستے!“
وہ تو درد کا سفر تھا،درد کی دوا کے واسطے!
جس سفر میں مائیں بیِن کرتی تھیں،بیٹیاں رو تی تھیں اور وہ عظیم دلا سہ بن کر ان کے آنسو پونچھتا تھا
وہ جس سفر میں ان کے سروں کے چادریں درست کیا کرتا تھا
جن سفروں میں کوئی تو جان پایا ہوگا کہ
”بڑا ہے درد کا رشتہ
یہ دل غریب صحیح!“

ایسا نہیں کہ اس نے بس درد کا مشاہدہ کیا ہو۔پر اس نے درد جھیلا بھی ہے۔ایسا نہیں کہ اس نے بس بھونکتی بندوق سے گھائل وجوددیکھے ہوں اور مولا مولا کہتا گھرکو لوٹ آیا ہو نہیں ایسا نہیں پر اس نے تو جلیل ریکی کے گھائل جسم پر گولیوں کے نشان گنے ہیں۔ایسا نہیں کہ وہ جدائی کے دکھ سے واقف نہ ہو پر جدائی تو آج بھی اس کے جسم میں درد بن کر جیتی ہے اور وہ روتا ہے!ایسا نہیں کہ اس کے پاس دکھی مائیں آئیں اور وہ انہیں دلا سہ دیکر گھروں کو لوٹا دے نہیں ایسا نہیں اس کے پاس تو دلاسے کے الفاظ ہی ختم ہو جا تے ہیں پھر وہ آنے والی ماؤں کو گھروں کو نہیں لوٹاتا پر ان کے ساتھ روتا ہے
پرائے درد پر اپنے آنسو
اپنے آنسوؤں پر پرایا درد

ایسا نہیں کہ اس کے پاس آنے والی سب مائیں گھروں کو لوٹ جا تی ہیں۔نہیں ایسا نہیں بہت سی مائیں تو اس کے ساتھ وہیں رہ جا تی ہیں جہاں وہ درد کی دکان سجائے بیٹھا ہوا ہے۔ایسا نہیں کہ وہ بس سمی کے درد سے واقف ہے،وہ تو ان بلوچ بیٹیوں کے درد سے بھی واقف ہے جن کے نام نہ تو میں جانتا ہوں اور نہ تم!ایسا نہیں ہے کہ وہ ان دردوں کی دکان ابھی ابھی سجائے بیٹھا ہے پر ان دردوں کی دکان کو اتنے دن گزر چکے ہیں کہ ان دنوں کو کون گنے اور کیوں گنے؟!
لطیف کی جو تیاں تو تمر لیے لیے پھرتا تھا اور چیخ پڑتا تھا کہ
”سائیں ایسی بھا ری جوتیاں؟“
ابھی تک اسے تو کوئی تمر ملا ہی نہیں اور اس سے ایسی چیخ نکلی ہی نہیں کہ
”ماما ایسی بھاری جو تی!“
جس سفر کو،سفر نی دیکھا،جس سفر کو وشال آنکھوں نے دیکھا،جس سفر کو درداں دی ماری ماؤں نے دیکھا،جس سفر کو راہ نے دیکھا،راہ گیروں نے دیکھاجس سفر کو رات نے دیکھا شام نے دیکھاہر ابھرتی صبح نے دیکھاجس سفر کو راہ میں پڑے پتھروں نے دیکھا،جس سفر کو دامن نے دیکھا،دل نے دیکھا
جس سفر کو پیروں میں لپٹتی دھول نے دیکھا،جس سفر کوبارشوں نے دیکھا،اوس نے دیکھا بند دروں نے دیکھا،جس سفر کو تاروں نے دیکھا چاند پر آتے جا تے بادلوں نے دیکھا
پر اس سفر کو انہوں نے نہیں دیکھا جن کو دیکھنا چاہیے تھا!
وہ جو ہجوم میں اکیلا مسافر تھا
وہ جس کے پیروں میں دھول اور جوتیوں میں درد ٹانکا ہوا ہے
جس کی آنکھوں میں اداسی اور انتظار ٹہر سا گیا تھا
وہ جو دکھی ماؤں کا آخری دلاسہ اور پہلی محبت ہے
وہ اداس کیمپ میں بھی آخر کتنا بیٹھے؟
پر اس نے تمام عید اس کیمپ میں گزار دی ہیں
ساون کی تمام بارشیں اس پر اسی کیمپ پر برسی ہیں
بدن جھلسا دینی والی دھوپیں اسی کیمپ پر اس بوڑھے انسان نے سہیں ہیں
شال کی سب سرد ہوائیں اس پر گزری ہیں
شال کی سفید برف نے اسے اپنی بانہوں میں لیا ہے
اور بہنوں،بیٹیوں اور ماؤں کی آنکھوں سے سب نکلے ہوئے آنسو
اس نے اسی کیمپ میں اپنے لزرتے ہاتھوں سے صاف کیے ہیں
کون جانے اور کیوں جانے کہ اس نے اس اداس کیمپ پر زندگی کے کتنے دن صرف کیے
اور وہاں کیا کچھ دیکھا اور جھیلا
اور کون جانے اور کیوں جانے کہ وہ کمزور دل وہاں پر کیا سوچتا ہے؟
وہ جو اپنے ہی دیس میں مسافر بنا
اور دردوں بھرا سفر کیا
وہ مسافر جیسا سفر
وہ سفر جیسا مسافر
وہ مسافر بیمار ہے
وہ سسیوں کا پنہوں بیمار ہے
وہ پہلی محبت جیسا شخص بیمار ہے
وہ آخری دلاسے جیسا شخص بیمار ہے

محبت جیسے دیس کا اس کیمپ میں ہونا بہت ضروری ہے جس کیمپ میں بلوچستان بھر سے رو تی مائیں آتی ہیں اور اسے بتاتی ہیں کہ کون؟کب؟کیسے؟اس کے بیٹے کو لے گیا اور وہ آگے بڑھ کر ان کے آنسو پوچھنتا ہے۔ان کے سروں کے دوپٹے ٹھیک کرتا ہے
اور انہیں یقین بھرے دلاسے جیسا دلاسہ دیتے ہو ئے کہتا ہے کہ
”اماں وہ دیر سویر لوٹ ہی آئیں گے!“
وہ دلاسے جیسا مسافر بیمار ہے
آئیں دعا کریں کہ
”اے مولا دکھی ماؤں کو کون ہے
بیٹیوں،بہنوں اور رو تے بچوں کا کون ہے
وہ جو دردوں کی ماری ہیں
پریشان حال ہیں
ان کا بس یہ دلاسہ ہے
اس دلاسے کو باقی رکھ
اس دلاسے کو اچھا کر دے
کیوں کہ ان دردوں سے بھری ماؤں کو
اس دلاسے جیسے شخص کی ابھی بہت ضرورت ہے
وہ جو پہلی محبت جیسا شخص ہے“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں