بے روزگار چوک میں طلبہ کے مظلوم طبقے کا احتجاج
تحریر:منظور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ بدھ کی پندرہ ستمبر کی دوپہر ہے، چلچلاتی دھوپ میں طلبہ اور خاص طور پر ہماری بچیاں، جن کو عرف عام میں مستقبل کے معمار کہا جاتا ہے، بے روزگار چوک یعنی سیکریٹریٹ چوک یعنی ریڈ زون سے باہر احتجاج کر رہی ہیں، آٹھ ستمبر سے پی ایم سی (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے انٹری ٹیسٹ کے خلاف ہونے والا یہ احتجاج جاری و ساری ہے۔ اس سے قبل اسی احتجاج پر پولیس والوں نے اپنے ایک ایس ایچ او کی قیادت میں طلبہ پر وحشیانہ تشدد کی ایک اور مثال قائم کر چکے ہیں، تا دم تحریر ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں سے کوئی باز پرس تک نہیں کی گئی ہے۔ کیوں ایسا اقدام اٹھایا گیا؟ یہاں کے رہنے والے خواہ طلبہ و طالبات ہی کیوں نہ ہوں، وہ حکمران طبقے کے سامنے انسان تو کیا، آدمی تو کیا، شہری تو کیا، صرف رینگنے والے کیڑے مکوڑے ہیں، جن کو جب بھی چاہے مسلا جائے، کچلا جائے، کاروبار حکومت چلتا رہے گا۔ عام عوام اب اس حیوانی زندگی بلکہ حشرات الارض کی زندگی کے عادی ہو چکے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں۔
دوسری جانب ایشوز کی بھر مار ہے، اور حالات اس تیزی سے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں کہ ہر لکھی جانے والی تحریرچند گھنٹوں بعد اپنی تازگی کھو بیٹھتی ہے، اور ایک نیا ایشو اور بحران سر اٹھانے لگتا ہے۔
ارادہ تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی یاد وں کو تازہ کیاجائے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو اپنے حقیقی سیاسی قائدین سے متعلق آگاہی حاصل ہو سکے۔ لیکن دوسری جانب طالبان نے کابل پر کیا قبضہ کر لیا کہ دنیا کی تمام خبریں ایک طرف رہ گئیں اور طالبان کا چرچا پوری دنیا کی روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ہو گیا۔
جس روز کشمیری گیلانی کی میت کا معاملہ چل رہا تھا، اسی روز جنگ اخبار کوئٹہ کو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ سردار مینگل کی رحلت کی خبرکو شہ سرخیوں میں جگہ دیتا لیکن اس نے سردار مینگل پر کشمیر کے گیلانی کو فوقیت دی اور اخبار کے اپر ہاف کی بجائے لوئر ہاف میں چار کالمی سرخی دے کر اپنا بلوچستان اور بلوچ عوام کے ساتھ حق نمک ادا کیا۔ جنگ کوئٹہ کی تاریخ ”صحافتی تاریخ“ میں سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے جس پر الگ سے لکھنے کی کوشش ہو گی۔
طلبہ کے احتجاج سے جنگ کوئٹہ تک کا تذکرہ بظاہربے جوڑ اور بے ربط معلوم ہوگا، لیکن یہ تمام معاملات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی صورتحال سے جڑی ہوئی ایک خبر اور بھی ہے کہ سابق گورنر بلوچستان سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے اپنے مستعفی ہونے کے بعد ایک سنسنی خیز انٹرویو دیا ہے ، جس میں انھوں نے باتوں کو چبائے بغیر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور اس سے متعلقہ ایک شخص کی وومن یونیورسٹی کی کارستانیوں کو بے نقاب کیاہے، جس کا نازک پہلو یہ ہے کہ وومن یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کی بات صاف لفظوں میں کی گئی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس انتہائی تکلیف دہ معاملہ پر کسی پارلیمانی جماعت نے لب کشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ تادم تحریر سوائے پشتونخواہ میپ اور نواب زادہ لشکری رئیسانی کے ایک بیان کے، اور کسی جماعت کا موقف سامنے نہیں آیا ہے، یا پھر اسے میری کوتاہی سمجھئے کہ میں نے کسی اور سیاسی جماعت کی آواز اس حوالے سے نہیں سنی ہے۔
یہ معاملہ بھی تفصیل کا طالب ہے، اس کے ساتھ ساتھ جام حکومت کے تحریک عدم اعتماد نے بیچارے طلبہ کی احتجاج کو حاشیہ پر لاکھڑا کیا۔ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے یہ ایشوز کہیں نہ کہیں ایک جگہ منسلک ہو جاتے ہیں۔
طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد پاکستان پر اس کے سیاسی اثرات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں، عمران خان حکومت نے کنٹرولڈ میڈیا پر مزید کنٹرول کرنے کیلئے نئی اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس پر پاکستان بھر کے صحافی اسلام آباد میں احتجاج کر رہے ہیں۔اس میں میڈیا ہاؤسز کے مالکان کی تنظیم سے لیکر صحافیوں کی پی ایف یو جے، سبھی شامل ہیں ، اور وہ نئی اتھارٹی کو کالا قانون کا نام دے رہے ہیں، لیکن صحافیوں کے تضاد کا عالم یہ ہے کہ ”بے روزگار چوک“ میں دھرنے دینے والے طلبہ و طالبات کی کوریج نہیں ہو رہی ہے۔ جسے ہم مین اسٹریم میڈیا کا نام دیتے ہیں، اور اس سے وابستہ وہ صحافی جو خود کو سینئیر صحافی کہلوانے کے مشتاق ہیں، ان کی وہاں عدم موجودگی صحافت کی بہتر سالہ تاریخ کو ننگی کر رہی ہے۔
بچے اور بچیاں، جو مستقبل کے سہانے سپنوں کو لے کر بی ایم سی انٹری ٹیسٹ میں ظاھر ہوئے تھے، اب وہ پی ایم سی کے خلاف گرم دھوپ میں سڑک پر بیٹھے نعرے لگا لگا کر ہلکان ہو چکے ہیں، تادم تحریر اپوزیشن کے چند اراکین کے سوا حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے ملنے اور ان کی بات سننے کو رسمی طور پر بھی اہمیت دینے کی جسارت نہیں کی ہے، ”بے روزگار چوک“ میں جھلسانے والی دھوپ میں بیٹھے ان مستقبل کے معماروں سے زرا چند گز آگے سیکریٹریٹ کے وسیع و عریض علاقے میں چیف سیکرٹری، وزراء اور سیکرٹری صاحبان اور سجے سجائے دفاتر میں ایئرکنڈیشنڈ کے جھونکوں میں گپ بازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جسے آپ چائیں تو میٹنگ کا نام بھی دے سکتے ہیں، یہ گونگے اور بہرے بیوروکریٹ اپنی طلسماتی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں، ان کیلئے یہ کوہ قاف سے کم نہیں ہے، جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہے،سبز، نیلی، پیلی پریاں جلوہ گر ہوتی ہیں، ہوا کے شیریں جھونکے اور شب و روز کی مینا چھلک رہی ہوتی ہے، ان میں دیو بھی ہیں، نظر نہ آنے والے جن بھی ہیں، جنکے قبضہ قدرت میں دنیاکی حسین ترین مخلوق مقید ہے، لیکن داستان میں، اس اساطیری دنیا میں فقط ایک کمی ہے وہ یہ کہ اس دیو مالائی داستان میں ہیرو کا کردار موجود نہیں ہے، اس جدید دور کی جدید داستان میں خیر و شر کی جنگ میں کلاسیکل داستان میں خیر کی جیت کی بجائے ہر سمے ہر وقت شر غالب آتا رہتا ہے۔اس لئے ان کو ان مستقبل کے معماروں سے کوئی واسطہ نہیں ہے، البتہ وہ اپنی کوہ قاف کی سلطنت میں بیٹھے تعلیم پر بھاشن دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلوچ سیاسی، قومی مسئلہ کا ان کے ہاں فقط ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تعلیم۔تعلیم ناگزیر طور پر ان کے سیاسی حکومتی اور نوکر شاہی کے نعروں میں سب سے نمایاں ہے، وہ طلبہ کے ہاتھوں میں کسی ہتھیار کی بجائے قلم دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے نعروں میں طلبہ کے ہاتھوں میں کتاب کا نعرہ بھی اپنے حسن کی دلآویزی میں یکتا ہے، تعلیم ان کی ترجیحات میں سر فہرست (گو کہ عملا تعلیم کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں ہے)۔
نیپ حکومت کے خاتمہ سے لیکر آج تک ہر حکومت نے بلوچستان میں تعلیم کا نعرہ مستانہ بلند کیا ہے، دور کیوں جائیے، ماضی قریب میں قوم پرست کہلائی جانے والی پارٹیوں کے دور حکومت میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذکا اعلان ہوا، افتادگان خاک کو نوید سنائی گئی کہ تعلیم کے بجٹ کو 26 فیصد تک بڑھا لیا گیا ہے، نقل کے خاتمہ پر ساری حکومت، انتظامیہ، ڈی سی، سمیت سارے ہنر منداں اہل علم و حکمت نے امتحانی ہالوں پر چھاپے مارے، میرٹ کی بحالی کے احکامات صادر ہوئے، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کرنے والوں کے دور میں اور ان کے بعد طلبہ و طالبات کے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں خوف ناک اضافہ کیسے ہوا؟
وہ بچیاں جو آج دھوپ میں قلم اور کتاب کی بجائے بینر، پوسٹر، احتجاج اور نعرے لگا رہے ہیں، یہ تو خوش قسمت ہیں جو بی ایم سی کے انٹری ٹیسٹ تک پہنچنے میں کام یاب ہوئیں، لیکن بلوچستان کی طالبات کی بڑی تعداد کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں فیمیل ٹوائلٹ تک موجود نہیں ہیں، خستہ حال، پسماندہ، بچھڑے ہوئے علاقے کے تعلیمی اداروں کی بات اپنی جگہ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی فیمیل کیلئے ٹوائلٹ موجود نہیں ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطابق تاحال ان کی بات کی شنوائی نہیں ہو رہی ہے، ہو بھی کیسے، کیونکہ ان سے چند قدم آگے ریڈ زون میں جام حکومت اپنی ٹیم کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کے مسئلہ سے دوچار ہے، اس لئے طلبہ و طالبات کے اس غیر موزوں، بے محل احتجاج ان کی نفرت اور غصے میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے، اسی لیئے تو بے چارے طلبہ و طالبات کو ایک جمہوری جام حکومت میں اپنے بنیادی اور چھوٹے سے حق کیلئے احتجاج کرنا پڑ رہا ہے، کتاب اور قلم کی مانگ کرنے والے طلبہ و طالبات اپنا قیمتی وقت، ”بے روزگار چوک“ میں دھوپ، گرمی، پیاس اور حلق کو خشک کرنے والے نعروں پر خرچ کر رہے ہیں، ان کے نعرے بظاہر بڑے بے ضرر نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اندر جو صورت پنہاں ہے، وہ الارمنگ ہے، لیکن الارمنگ والی بات کو یہاں کون مانتا ہے، اس پر یقینا فہمیدہ و شائستہ اور پڑھی لکھی مخلوق ایک قہقہہ لگائے گی اور بس۔۔۔۔
یقینا طلبہ و طالبات کے یہ نعرے ان کانوں تک ضرور پہونچ رہے ہونگے، جو پہلے ہی سے بلوچستان کی صورتحال پر شدید تشویش کا شکار ہیں، انھیں ان نوجوانوں سے، ان کی تعلیم سے خوف نظر آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بلوچستان کی جاری صورتحال کو آخر ایک سمت تو دینی پڑے گی۔ اگر یہ حساس قسم کے کان نوجوانوں کی بے چینی پر پریشان ہیں تو انھیں تعلیم کے نعروں سے آگے آنا ہوگا، لیکن فی الحال ایسی کوئی صورت نہیں۔
جب نیپ حکومت کا خاتمہ کیا گیا، سردار عطاء اللہ مینگل کو برطرف کرکے ان کی جگہ موجود وزیر اعلی جام کے دادا جام غلام قادر کو وزیر اعلی بنایا گیا ۔ انھوں نے میٹرک تک مفت تعلیم کی فراہمی کا اعلان کیا، یہ اعلان آپ کو موجودہ ڈی جی پی آر جو کبھی ڈی پی آر ہوا کرتا تھا، کے اس زمانے کے رسائل میں ملے گا، تین نسلوں تک وزار ت اعلی کے منصب پر فائز یہ خاندان آج بھی اس اعلان پر عمل در آمد نہیں کروا سکا ہے، بلکہ ان کو شاید یاد بھی نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے ہاں پارلیمانی لیڈروں کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی سیاست وقتی اور ایشوز کی سیاست ہوتی ہے، وہ موقع پرستی کے تحت جو کچھ کہتے ہیں، جلد ہی وہ اس کے برعکس بولنے لگتے ہیں، اگر صرف ایسے رہنماوں کے بہترسالہ بیانات کے ریکارڈ کو یکجاء کرکے کتابی شکل دی جائے تو اس کے کئی والیوم بنیں گے۔ ان کا ہر بیان ان کے اپنے دیگر بیانات سے متصادم اور متضاد بھی ہوتا ہے۔
بہر حال، تادم تحریر پی ایم سی اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ ان کے امتحان کے طریقہ کار میں کوئی نقص نہیں ہے، دوسری جانب ڈاکٹر منوج کمار کوچنگ سینٹر اور خاص طور پر بی ایم سی انٹری ٹیسٹ کے حوالے سے خاصے معروف ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ دو ہزار سے لے کر اب تک بی ایم سی انٹری ٹیسٹ کیلئے بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ ہر سال ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے، اور ذہین طلبہ و طالبات نہ صرف کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں، بلکہ ان تجربات کے باعث وہ ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بہت نازک مسئلہ ہے، لیکن ہاتھی کے کھال پہننے والوں کیلئے یہ کوئی مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں ۔ڈاکٹر منوج کمار کا کہنا ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن جس طرح سے ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے، وہ ایک سنگین معاشرتی، سیاسی، ثقافتی مسئلہ بن چکا ہے۔ پوری دنیا میں اقوام اپنی نوجوان نسل کو اپنا قیمتی اثاثے سمجھتی ہیں، ان کیلئے سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، کیونکہ نوجوانوں میں جو توانائی ہوتی ہے، کام کرنے کی جو طاقت ہوتی ہے، اس کے ذریعے اقوام اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کرتی ہیں، ان پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں گنگا ہمیشہ سے الٹے بہاؤ بہتی چلی آ رہی ہے۔ آبادی کا ساٹھ فیصد ہونے کے باوجود یہ بلوچستان کا سب سے مظلوم طبقہ بن چکا ہے، ایک جانب ان پر والدین کا دباؤ ہوتا ہے، ان کو خاندان میں بار بار یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ ان کی تعلیم پر پیسے خرچ ہو رہے ہیں، اور وہ نکمے، کام چور اور کتاب سے دور بھاگتے ہیں، ان کے تعلیمی کیرئیر کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوتا بلکہ اس کو سماج طے کرتا ہے، سماج جو والدین کی شکل میں، مامے چاچے کی شکل میں، بد قسمتی سے بچوں پر ان کی مرضی کے برعکس مضامین مسلط کرنے والے پڑھے لکھے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، آپ انھیں ڈگری یافتہ احمق بھی کہہ سکتے ہیں۔
بہت سے طلبہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ آرٹس پڑھنا چاہتے ہیں، یا بائیولوجی، کیمسٹری یا ریاضی میں ان کی استعداد اچھی ہے، لیکن یہ فیصلہ وہ نہیں کرتے، اگر ان کے خاندان میں کوئی وکیل ہوگا تو وہ ان کو وکالت کی تعلیم کا مشورہ دے گا۔ کوئی ڈاکٹر ہوگا تو ان کو میڈیکل کی تعلیم کی راہ دکھائے گا، بلا شبہ ان پر یہ مسلط کیا جائے گا، وہ اپنی دل چسپی اور تخلیقی میدان سے دور دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں سبجیکٹ کا تو کوئی سکوپ ہی نہیں، تم یہ ڈگری لیکر کیا کرو گے؟ تمہیں تو کوئی ملازمت نہیں ملے گی، گویا تعلیم کا معاملہ نوکری سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ مارکیٹ کی تعلیم بھی ضروری ہے لیکن اسی صورت میں جب طلبہ و طالبات کو اپنے سبجیکٹ کا انتخاب کرنے کا حق بھی حاصل ہو۔
آرٹس کو ہمارے تعلیمی اداروں میں اچھوت کی حیثیت دی گئی ہے۔ گویا اگر کوئی طالب علم سائنس کی بجائے سوشل سائنسز میں دل چسپی رکھتا ہے، تو وہ بلا کا ذہین ہی کیوں نہ ہو، اسے نکما اور نالائق قرار دیا جائے گا۔
خاندان، جو بچے کا پہلا تعلیمی یونٹ ہے، اس کی صورت بیان ہو چکی ہے، اس کے بعد مرحلہ آتا ہے، پرائمری اور سیکنڈری سطح تک کی تعلیم کا۔ ہمارے ہاں بقول ایک دوست کے، کہ بچے کا اسکول آنا جانا تعلیم کہلاتا ہے، اندرون بلوچستان پرائمری اور ہائی اسکولوں کی حالت زار پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں سے ان کو نہ تعلیم ملتی ہے نہ تربیت، اور نہ ہی ان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا احساس دلایا جاتا ہے، اس کے بجائے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کچل دیا جاتا ہے، اور جب وہ کالج اور یونیورسٹی میں آتے ہیں، گویا وہ ایک نئی دنیا میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، اور جب ان کو سارا کھیل تماشہ سمجھ میں آ جاتا ہے، اس وقت تک ڈور ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی ہے، ان کے حصے میں ایک ڈگری اور افسوس کے سوا کچھ نہیں آتا۔
اسی لئے تو سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے ایک بار کہا تھا کہ بلوچستان کی یونیورسٹیاں کلرک بھی پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔
اب وہ تعلیم جو کلرک بھی پیدا نہیں کر سکتی، وہ ایک انسان، ایک اچھا لیڈر کیونکر پیدا کرنے کی اہلیت رکھ سکتی ہے، آخر ایسی تعلیم کا فائدہ کیا ہے؟
نصاب کو دیکھئے تو طالب علم کو بیک وقت تین چار زبانوں کے ساتھ ساتھ لازمی مضامین کے علاوہ کیمسٹری، فزکس، ریاضی، بائیولوجی سبھی کچھ پڑھنا پڑتا ہے، کیا ایک طالب علم روبوٹ ہے جو وہ سارے مضامین پر استعداد رکھ سکے، اس کا نتیجہ نقل اور رٹا فکیشن کی صورت میں نظر آتا ہے۔
طلبہ و طالبات کے وہ غم گسار، ٹیچر، سیاسی لیڈر جو نقل کو ایک لعنت قرار دیتے ہیں، ان کے جوش و جذبہ پر ایک عام قسم کی سوچ رکھنے والے شخص کو بھی ہنسی آتی ہوگی۔ کیونکہ نصاب، طریقہ تعلیم کو یکسر نظر انداز کرکے امتحانی ہال میں فرعون بن کر نقل پر ایسے حملہ آور ہوا جاتا ہے، جیسے خود ان صاحبان نے اپنے تعلیمی کیر ئیر میں کبھی نقل نہ کی ہو۔
کیا وہ شخص جو ابنارمل نہیں، وہ ایسے نظام تعلیم میں فقط نقل کے خاتمے کے جذبے پر نقارے بجا تے ہیں؟ یہ تو وہی پرانی مثال ہے، جو بار بار دہرائی جا چکی ہے کہ ایک کنویں میں کوئی مردہ کتا مرا پڑا تھا، مرے ہوئے کتے یا گدھے کو کنویں سے نکالے بغیر نقل کے خاتمے کی باتیں، دعوے اور جوش کی مثال انہی دیہاتیوں کی طرح ہے، جو پانی نکال نکال کر اپنی دانائی پر خود نازاں ہوتے ہیں۔
نصاب اور نظام تعلیم کی تبدیلی تو ایک خواب ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ و طالبات کو احتجاج پر مجبور ہونے سے روکنے کیلئے کوئی عملی افادی اقدام ہو سکتے ہیں؟ جب بھی طلبہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں، ان کو بدتمیز، بد معاش اور غنڈے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اب بھلا ایف ایس سی کا ایک اسٹوڈنٹ کس طرح غنڈہ ہو سکتا ہے، کچھ خدا کا خوف کریئے۔
طلبہ کی تعلیم ہی فرمانبرداری سے شروع ہوتی ہے فرمانبرداری پر ختم ہو جاتی ہے، کب تک اس مظلوم طبقہ پر امتحانات کے تجربے کئے جائیں گے،اور کب تک ان پر تشدد کا سلسلہ جاری رہے گا؟
اسلام آباد اور لاہور میں بلوچ طلبہ پر تشدد کی تصویر یں آج بھی سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں، بعد میں زخم آلود چہرے والے نوجوان کہاں گئے؟ اور کیوں گئے؟ اس پر چرچا نہیں کیا جاتا، اس کا خلاصہ نہیں نکالا جاتا۔
اس تحریر کے شایع ہونے تک یہ احتجاج کونسی صورت اختیار کرے گا، کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ حکمران طبقہ، اشرافیہ، اپوزیشن وغیرہ سارے ہی تعلیم کی ترجیح سے ناواقف اور اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر تعلیم آپ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، تو بے روزگاری بڑھے گی، نوجوان نسل کی فرسٹریشن میں اضافہ ہوگا،اسٹریٹ کرائمز بڑھیں گی، اور قلم و کتاب سے دوری نوجوانوں کو کسی بھی انتہاء پسند گروہ یا قوت کیلئے خام مال کی شکل میں قتل و قتال کی مارکیٹ میں ہر وقت دستیاب ہوگا۔
جس معاشرے کا ساٹھ فیصدی آبادی بے چین ہو، اس کی جیب خالی ہو،اس کا دماغ منتشر ہو اس کی قوت کہیں نہ کہیں تو خرچ ہوگی اور اس کا تاوان پھر پورے معاشرے کو بھرنا پڑے گا ۔ ہم کئی دہائیوں سے یہی کرتے چلے آ رہے ہیں، آج کوئٹہ کی آبادی تیس لاکھ یا شاید اس سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن اس بڑی آبادی میں آدمی کا قحط الرجال ہے، ہمارے پاس بے شمار قدرتی وسائل ہیں اور اگر نہیں ہے تو انسانی وسیلہ۔
کب تک یہ جاہل اور انپڑھ سیاست دان اس مظلوم طبقہ کو تختہ مشق بناتے رہیں گے، جس انارکی کا ذکر ہم کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں، اس کی ایک معمولی جھلک آپ کو بے روزگار چوک میں نظر آئے گی۔ کبھی چند لمحوں کیلئے وہاں جایئے، ایک عام آدمی کی حیثیت سے ان کے نعرے سنیئے، ان کے جذبات دیکھئے، تو آپ کو آنے والے کل کی مکمل تصویر مل جائے گی۔ایک کٹا پٹھا کل، ایک مڑے تڑے ورق کی طرح آپ کے سامنے ہو گا، یہ بوسیدگی کل کی بوسیدگی میں اضافہ کی ایک اور وجہ طالبات کی تعلیم کا ہے، بلوچستان یونیورسٹی ہراسگی اسکینڈل کے بعد سابق گورنر بلوچستان کی وومن یونیورسٹی سے متعلق گفتگو، ہو سکتا ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کیلئے بے وقت کی راگنی ہو، یہ کہہ کر اسے نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب موصوف گورنر تھے، اس وقت وہ کیوں نہیں بولے۔ لیکن ان والدین کی جائز پریشانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جو اب اپنے بچیوں کو ناخواندہ رکھنے میں عافیت محسوس کریں گے۔ اور معاشرے کی پچاس فیصد آبادی کل بھی ناخواندہ تھی اور آنے والے کل میں بھی ناخواندہ رہے گی، ناخواندہ ماؤں کی تربیت میں پلنے والے بچے آبادی میں اضافہ کا باعث تو ہونگے؟ لیکن معاشرہ کس سمت میں رواں ہوگا اور اس کے منفی اثرات مدتوں تک رہیں گے اور ایسی صورت میں معاشرے کے معتبرین یا بڑوں کو آنے والی نسلوں کے رویوں پر شکایت یا چیخنے،چلانے کا کوئی حق نہیں ہوگا لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا، کیونکہ سوچنے اور تفریح کیلئے طالبان سے لیکر جام حکومت کے عدم اعتمادکی تحریک کی خبریں کافی ہیں۔ اور ان خبروں میں مصالحہ بھی بہت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں