بلوچ پشتون ہزارہ صوبہ یا بلوچستان؟
تحریر: شہے نوتک
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ کے انخلاء سے جہاں افغان سرزمین متاثر ہوئی وہیں افغانستان سے سرحدی اعتبار سے منسلک بلوچستان پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے جارہے ہیں۔ اسٹرٹجیکل حالات سے نوآبادیاتی نظام تک بلوچ معاشرے پر گہرا اثر پڑا اور پڑنے والا ہے۔ چمن بارڈر سے ہزاروں کی تعداد میں مظلوم افغان و ہزارہ کو بلوچستان کی راہ دکھائی جارہی ہے جہاں وہ دھڑادھڑ بلوچستان کے دارالحکومت شال کوٹ(کوئٹہ) کا رخ کررہے ہیں ۔ جہاں کسی عام شہری کی نسبت مہاجرین کو جلد از جلد ریاست کی طرف سے بلوچستان میں پاکستانی شہریت اور اراضی نام کی جارہی ہے۔
کل آئے مہاجروں کو دوسرے دن منتقلی کرنا اراضی نام کرانا , انہیں شہریت دے کر ذاتی جگہ فراہم کرنا اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ نوآبادکاری نظام کو عروج بخشا جارہا ہے ۔ نوآبادیاتی نظام میں نوآبادکار (قبضہ گیر) اُس خطے پر جہاں وہ اپنی حاکمیت چاہتا ہے وہاں وہ مقامی لوگوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے طرح طرح سے ہتھکنڈے کرتا ہے۔ کسی دوسرے خطے سے لوگ لاکر انہیں اس خطے میں آباد کرنا نوآبادکاری کہلاتا ہے۔
جیسا اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ کیا تھا آٹھارویں صدی میں یہودی آبادکار ایسے ہی نہتا بے سروسمان سر ڈھانپنے کو چھت ڈھونڈنے آیا تھا
آج وہ فلسطین کا آدھا مالک بننے کو تیار ہے۔ یہی عمل بلوچستان میں جاری ہے جہاں ریاست افغانستان کی متاثر سرزمین سے لوگوں کو بلوچستان کی راہ دکھا رہی ہے، پھر وہ انہیں مظلوم کہے یا زخمی یا مجبور و بے گھر کہے مگر وہ نوآبادکار کے سہولت کار ہی ہوتے ہیں۔
بابا مری کہتے تھے “ہر وہ شخص ,ہر وہ گروہ ،ہر وہ لشکر جو مفادات کے بلبوتے پر کسی خطے میں جائے خواہ وہ نہتا کیوں نا ہو وہ “غاصب” ہے آج اس کے مفادات جان بچا کر ٹھکانا ڈھونڈنے کے ہیں
آج وہ نہتا ہے بے طاقت ہے تو اسے بس چار دیواری چاہیے یا ایک چھت چاہیے جہاں وہ اپنا سر چھپا سکے مگر کل یہی شخص طاقت پکڑ کر اس خطے میں حصہ دار بن بیٹھے گا”
افغان ہوں یا ہزارہ صوبہ کے ہزارہ وہ بے شک و شبہ مظلوم ہیں ان پر ظلم ہوا مگر ان کے زخم کو کھروچ کر انہیں کسی دوسرے کے زخم بنائے جارہے ہیں۔ ان کو جس خطے کی راہ دکھائی جارہی وہ پہلے ہی آگ میں سلگ رہا۔ ہاں بے شک وہ اس خطے میں پناہ لینے آئے وہ اب بلوچ معاشرے کا حصہ ضرور ہیں مگر حصہ دار ہرگز نہیں ہیں۔
کچھ سال قبل اسمبلی میں ایک بل پر بحث کرنے سے قبل ایک قابل عزت پشتون ایم این اے نے جب بلوچستان کو ” بلوچ پشتون ” صوبہ کہا تو قلات کی ایک خاتون ایم این اے نے دو ٹوک کہا کہ محترم “بلوچ پشتون صوبے” کا کوئی وجود نہیں یہ دھرتی بلوچوں کی ہے یہ بلوچستان ہے اور بلوچستان تھا اس کا کوئی دوسرا نام نہیں۔
بے شک یہ بلوچستان تھا بلوچستان ہے ۔ جب انگریز یہاں پر آیا اس نے یہ خطہ بلوچ سے چھینا تھا اس نے بلوچ سے دوبدو جنگ کی اور اس نے بلوچ کو اقلیت میں بدلنے کے لئے کے خلاف ہی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی نوآبادکاری پالیسی مرتب کی۔
سویت جنگ ہو یا امریکہ کا انخلا ہو اس سے متاثر لوگوں کو باقی ماندہ پاکستان کی بجائے کوئٹہ میں آباد کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آج یہ لوگ بھی نوآبادکار کی طرف سے بسائے جارہے ہیں یہ ہمارے خلاف جنگ میں ایندھن بنیں گے، یہ میرے بھائی نہیں ہوسکتے
یہ بھی ایک غاصب کی حیثیت سے اپنے مفادات کے لئے یہاں منتقل کئے جارہے ہیں۔
ہم ہزار بار کہتے ہیں کہ افغان زخمی ہیں، افغان مظلوم ہیں، مگر افغان میرے خطے کا مالک نہیں ہیں۔ وہ میرے شال کو بلوچ پشتوں شہر نہیں کہہ سکتا نا ہی اسے جنوبی پختونخوا وغیرہ کا نام دے سکتا ۔ وہ آج ہزاروں کی تعداد میں ہجرت کررہا ہے، اگر اسے مکران جا کر چھت ملی تو وہ مکران کو پشتون بلوچ خطہ نہیں کہہ سکتا۔ ہرگز نہیں کیوں کہ وہ مہاجر ہے یا پناہ گزین ہے ۔
کیونکہ وہ جس رفتار سے اس خطے میں آباد کئے جارہے ہیں ان کو دھڑادھرڑشناختی کارڈ سے لے کر مکان جاری کئے جارہے ہیں
کل شال میں پاوں نا ٹک پائے تو یہ بلوچ اکثریتی خطوں پر اپنے حصے داری کی بات کرے گا۔
ان کے آنے اور آباد ہونے کو ایک اندھا بھی کہہ سکتا کہ سویت جنگ کی طرح اس جنگ کو بھی میرے خطے کے لئے نیا نوآبادکاری نظام مرتب کیا جارہا۔ اس خطے میں آپ سے پہلے انگریز غاصب آیا , اس نے اسے بلوچ انگریز خطہ نہیں کہا , اگر ماضی میں جائیں تو میں ہزار مثال دے سکتا کہ اس خطے پر کتنے غاصب آئے چلے گئے دفن ہوگئے مگر بلوچ سرزمین پر شناختی حملہ نہیں کیا , یہاں پر دڑوار آئے , آریا آئے ,ایرانی حملہ آوار آئے اس سے پہلے اس خطے میں عرب نے قبضہ کیا مگر اس نے اسے عرب بلوچ صوبہ نہیں کہا , کیونکہ وہ جانتا تھا میں یہاں غاضب ہوں دوست نہیں۔
ہم پھر کہتے ہیں جو بابا مری نے کہا تھا کہ آپ بلوچ معاشرے کا حصہ ہیں مگر حصہ دار نہیں ہیں ۔ یہ میرا صوبہ ہے یہاں کا شال بھی میرا ہے یہاں کا بارکھان بھی میرا ہے یہاں کا ڈیرہ غازی خان بھی میرا ہے، بولان بھی میری سرزمین ہے , ہرنائی سے گوادر تک میرا نسلی , جغرافیائی حق تھا ,ہے رہے گا ۔
ساروان سے جھلاوان پر موجود ہمارے بزرگوں کی قبریں , یہاں پر غاصب قوتوں سے لڑنے والے شہیدوں کی تختیوں پر لکھا “بلوچ” بتا رہے گا کہ اس دھرتی کا مالک کون تھا۔ گھر کا مالک اپنے گھر کے لئے لڑتا ہے مہمان نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں