بلوچستان کے تین کماش ۔زبیر بولانی

421

بلوچستان کے تین کماش

تحریر:زبیر بولانی

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو بلوچستان کی تاریخ کو ازل سے دیکھا جائے ایسے چند ہی افراد ہیں جس نے مورخ کو تاریخ لکھنے پر مجبور کیا ہے، لیکن آج کی اس تحریر میں بلوچستان کے ان تین کماشوں کا ذکر ہے جنہوں نے آزادی کے چراغ کو اپنے دل میں  لیئے، ایک امید کی کرن کو اپنے  سینے پہ سجائے ، دشمنوں کے لئیے اپنے ہتھیار اٹھائے کفن کو اپنے سر پہ باندھے، اس دنیائے فانی سے رخصت ہوکر اپنی دھرتی کے آغوش میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ یہ کہنے کو تو سردار تھے لیکن ایسے سردار جنہوں نے خود سرداری نظام و قبائلی نظام کے خاتمے کی جہد کی۔

آج بھی بلوچستان کے نوجوان نواب خیر بخش مری کی نظریہ و فلسفے، نواب اکبر خان بگٹی کی وہ گرجتی آواز و استقامت اور سردار عطاللہ کا سخت لہجہ وطن کیلئے درد کو اپنے سینے میں لیئے پھرتے ہیں۔ ان کماشوں نے تاریخ کی بدترین آمریتوں میں ہر وقت دشمن کو یہ باور کرایا کہ آپ ہمیں قید و بند کر سکتے ہیں قلی کیمپوں میں اذیتیں دے سکتے ہیں ہمیں جلاوطن کر سکتے ہیں ہمیں مار سکتے ہیں لیکن ہماری اپنی سر زمین سے محبت اور قوم کی جہد آجوئی نہیں چھین سکتے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ہمارے تین سردار تھے وہ نہیں رہے ، باقی جو 70 ہیں وہ تمھارے ہیں تمھیں مبارک۔ بلوچستان کے یہ تین کماش دوستیاں، دشمنیاں، رشتہ داریاں، یاریاں اور دلداریاں بھی وطن کےلیے کرتے تھے۔ یہ لوگ غاصب کو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ ” اگر کوٸی مجھے غلام رکھنا چاہے گا تو میں اس کے منہ پر دس دفعہ تھوکونگا، میں بھاٸی بن کر ساتھ چلنے کو تیار ہوں مگر غلام بن کر ساتھ رہنے کو ہرگز تیار نہیں۔ میرا جی چاہا تو میں مرنا پسند کرونگا مگر غلام رہنا ہرگز پسند نہیں کرونگا“

ان کماشوں کی تمام تر زندگی نوجوانوں کو بیدار کرنے ان میں علم و شعور جیسی قوت پیدا کرنے اور اپنی سرزمین کے خاک سے عشق کرنے کیلئے ہر وقت ترغیب و تبلیغ میں گزری۔ نیپ کے دور میں ان کماشوں نے سیاست کو ایک نیا رخ دیا جس میں ہمت غیرت دھرتی سے پیار ،خاک سے محبت ،ثقافت کی پہچان زبانوں کی مٹھاس شامل ہے۔انھوں نے عشق کا حقیقی مقصد نوجوانوں کو سمجھایا جس کے بدولت آج ہربلوچ نوجوان چاہے وہ کسی بھی قبلہ اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو سب کے دل میں اپنی وطن کے اس صبح روشن کا چراغ جل رہا ہے جیسے ان تین کماشوں کی دل کی خواہش تھی۔

تاریخ میں ایسے کماش بہت کم ملیں گے جنہوں نے اگر عشق کیا تو وطن سے اگر اذیتیں سہیں تو اپنے قوم کیلئے ۔آج بولان کے سرمئی پہاڑ، چلتن کی یخ بستہ ہوائیں، ہربوئی کا وہ میٹھا پانی انھیں یاد کر کے افسردہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں