بابا عطااللہ مینگل، ایک عہد جو تمام ہوا
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سردار عطااللہ مینگل کی رحلت سے ہر ذی شعور بلوچ غمزدہ ہے۔
ان کا شمار تین سرداروں کی فہرست میں ہوتا ہے جو ریاست کی ڈگر پر چلنے یا ریاست کی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے بلوچ قومی مفادات کا سوال لے کر ہر پلیٹ فارم پر اپنا موقف دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتے تھے۔
ایک دوست کے بقول ” ان کا شمار ان تین سرداروں میں ہوتا ہے جن کے سردار ہونے نے باقی 97 سرداروں کے سردار نا ہونے کا شعور دیا۔”
بابا مری اور نواب شہید کے بعد بابا عطاللہ مینگل وہ آخری سردار تھے جنہوں نے بلوچ سیاسی کلچر میں مزاحمتی فکر کو مزید توانا کیا۔
لیکن افسوس، صد افسوس کہ ہم آزادی پسندوں نے ان کے کردار کیساتھ انصاف نہیں کیا۔ ہم نے کماش عطااللہ مینگل کو اپنا ورثہ سمجھ کر ان کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اپنے سیاست کے آغاز سے لے کر قبر میں اترنے تک انہوں نے کسی بھی مقام پر بلوچ قومی مفادات پر کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
وہ تحریک آزادی کے سچے خیرخواہ تھے، وہ تنقید ضرور کرتے تھے اور اس تنقید کے پیچھے ان کا وسیع تجربہ تھا لیکن ہم اپنے جذباتی پن کو لے کر ان کی مدبرانہ سوچ کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ وہ مصلحت پسند نہیں تھے لیکن وہ خوش فہمی کا شکار بھی نہیں تھے۔ جو کچھ یہ نسل آج دیکھ رہی ہے وہ بہت پہلے ان تجربات سے گذر چکے تھے اس لیے جب وہ کوئی بات کرتے تو تجربات کی روشنی میں کرتے۔
سردار عطا اللہ مینگل وہ پہلے رہنما ہیں جنہوں نے حکومت ملتے ہی نوآبادیاتی پالیسیوں کو کائونٹر کرنا شروع کردیا، انہوں نے نوآبادکاروں کو ٹرینوں میں بھر بھر کے واپس بھیج دیا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ مختصر سے دور حکومت میں انہوں نے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ بابا مری کیساتھ مل کر قبائلی نظام کے خاتمے کے لیے باقاعدہ قرار داد پیش کیا۔
اپنے بیٹے کی لاپتہ ہونے پر بھی ان کے حوصلے پست نہ ہوئے بلکہ انہوں نے ہر بلوچ کو اپنا فرزند تسلیم کرکے قوم کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ نا فاتحہ خوانی کی نا ہی کوئی فریاد کیا بس یہ زخم اپنے سینے میں لے کر وہ ظالم کے خلاف مزید منظم انداز میں برسرپیکار نظر آئے۔
بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں بابا مری کیساتھ ان کی قربت سب سے زیادہ رہی۔ میڈیا میں بھی انہوں نے کبھی آزادی کا انکار نہیں کیا۔
بلوچ جہدکاروں کو اپنے پیغام میں انہوں نے بتایا کہ “اگر لڑ سکتے ہو تو جی بھر کے لڑو وگرنہ اپنی ماوں کو مت رلائو۔”
ایک مدبر لیڈر اور تحریک کے ہمدرد کی حیثیت سے انہوں نے یہ پیغام دیا کہ اخری حد تک جاسکتے ہو اور سنجیدگی سے لڑ سکتے ہو تو بہتر ہے تاکہ منزل و مقصود حاصل ہو لیکن اگر بے اتفاقی اور غیر سنجیدگی سے لڑتے رہوگے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ بلوچ مائیں روتی رہینگی جبکہ نوآبادکار پر اس کا کوئی مستقل اثر نہیں پڑیگا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ “میں ہر اس انسان سے آزادی چاہتا ہوں جو مجھے غلام رکھنا چاہتا ہے، جو مجھے اپنے بھائی کی طرح رکھنا چاہے، میں اس کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں لیکن جو مجھے غلام رکھنے کی کوشش کریگا میں اس کے مقابلے میں مرنا پسند کرونگا۔”
آخر میں سردار عطااللہ مینگل نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور یہ ایک قومی المیہ سے کم نہیں تھا کیونکہ جس جذباتی پن کیساتھ ہم نے ان کے قومی کردار پر سوالات اٹھانا شروع کردیے اپنی خاموشی میں انہوں نے بہت کچھ واضح کردیا۔تاریخ کے کٹھرے میں ان کی سیاسی دانائی کے آگے ہمارا جذباتی پن نادم کھڑا ہے۔
کیا ہم اپنی تاریخی غلطی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ نفرت کی بنیاد پر ہم نے جتنا وقت ضائع کیا اس کا دگنا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سنجیدگی کیساتھ سوچنا اور عمل کرنا ہوگا تاکہ قومی تحریک آزادی منزل مقصود تک پہنچ سکے۔ ہمارا انقلابی ورثہ جو شہید محراب خان سے لے کر نواب اکبر بگٹی شہید تک، یوسف عزیز مگسی سے بابا مری و سردار عطااللہ تک اور جنرل اسلم بلوچ تک ایک عظیم ورثہ ہے۔ جنہوں نے ہمارے لیے بہت کچھ واضح کردیا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے دکھائے ہوئے راستے پر کس طرح چلتے ہیں۔ الجھنا نہیں آگے بڑھنا ہے اور ایک قوم کی حیثیت سے آزادی حاصل کرنا ہے۔
آخر میں بابا عطااللہ مینگل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس امید کیساتھ جدوجہد کو اگے بڑھانے کا عزم ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ کسی کماش عطااللہ مینگل جیسے رہبر کا بیٹا اسد کی طرح لاپتہ نا ہو، آئندہ کسی عظیم جنرل اسلم کو اپنے پورے خاندان کی قربانی نا دینی پڑے۔۔۔ بلوچ قوم آزاد و خوشحال ہو، بلوچ سماج انسانیت کی جانب انسانی سفر کا ایک اہم قدم ثابت ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں