افغان آرمی کیوں نہ لڑی؟ | آخری حصہ – سمیع سادت |

482

افغان آرمی کیوں نہ لڑی؟

تحریر: سمیع سادت | آخری حصہ

دی بلوچستان پوسٹ

طالبان اور صدر ٹرمپ کے درمیان قطر میں ہونے والے معاہدے نے موجودہ صورتِ حال کی ایک شکل تو واضح کردی تھی کہ اب امریکی اور اتحادی افواج کے پاس طالبان پہ حملہ کرنے کی گنجائش بہت محدود ہوگئی ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز کو ملنے والی امریکا کی فضائی سپورٹ کے رولز بھی راتوں رات تبدیل ہوگئے جس کی وجہ سے طالبان بہت دلیر ہوگئے۔ وہ فتح کے جذبات سے سرشار نظر آئے اور سمجھتے تھے کہ اب تو بس امریکی فوج کے جانے کی دیر ہے۔

اس معاہدے سے پہلے طالبان نے افغان آرمی کے خلاف کسی جنگ میں بھی خاص کامیابی حاصل کی تھی مگر دوحہ معاہدہ ہونے کے بعد کیا ہوا؟ ہر روز ہمارے درجنوں فوجی مر رہے تھے مگر ہم نے پھر بھی جنگ جاری رکھی۔ یہاں تک کہ اپریل میں صدر جوبائیڈن نے یہ علان کردیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ فروری 2020ء میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کریں گے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان سے امریکی انخلاء کے پروگرام اور شرائط کا اعلان کردیا گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب ہر چیز ہمارے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوگئی۔

افغان فورسز کی ٹریننگ بھی امریکا کے عسکری ماڈل یعنی اسپیشل ٹیکینکل جاسوسی یونٹس، ہیلی کاپٹرز اور فضائی حملوں پر مشتعل تھی۔ جس دن فضائی سپورٹ اور ہمارا گولہ بارود ختم ہونے لگا اسی روز ہماری طالبان پر برتری بھی ختم ہوگئی۔

کنٹریکٹرز نے پوری جنگ کے دوران ہمارے بمبار طیاروں اور ٹرانسپورٹ طیاروں کو متحرک رکھا مگر جولائی تک ہمارے سترہ ہزار کنٹریکٹرز میں سے ایک بڑی تعداد ہمیں چھوڑ کر جاچکی تھی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب ہمارے ہوائی جہاز، بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اور سی 130 طیارے بھی گراؤنڈ کردیے جائیں گے۔ یہ کنٹریکٹرز ویپن سسٹم اور سافٹ ویئر وغیرہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے ہمارے ہیلی کاپٹر میزائل ڈیفنس سسٹم بھی ناکارہ کردیا۔ ہماری وہیکلر، اسلحہ اور فوجیوں کو ٹریک کرنے والا سسٹم بھی غائب کردیا گیا۔

ہمارے ٹارگٹس کی رئیل ٹائم انٹیلی جنس بھی بیکار کردی گئی۔ طالبان صرف نشانے بازوں اور دھماکا خیز مواد کے ذریعے ہی لڑ رہے تھے جبکہ ہمارے پاس جو پہلے فضائی اور لیزرگائیڈ صلاحیت تھی وہ بھی ختم کردی گئی تھی۔ چونکہ ہم اپنے اڈوں ہیلی کاپٹر سپورٹ کے بغیر ناگزیر سپلائی جاری نہیں رکھ سکے تھے اس لیے ہمارے فوجیوں کے پاس ضروری جنگی آلات اور ہتھیاروں کی شدید قلت ہوگئی۔ طالبان نے نئی فوجی اڈے روند ڈالے تھے اس لیے ہمارے یونٹس کے پاس طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

امریکی صدر جوبائیڈن کے برق رفتار اور مکمل انخلاء کے فیصلے نے صورتِ حال مزید خراب کردی تھی۔ انہوں نے امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء کرتے وقت درپیش زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کردیا۔ چونکہ طالبان کے حوالے سے اب امریکیوں سے کسی قسم کا خوف یا ڈر نہیں رہا تھا، میں اور میرے فوجی جوان صوبہ ہلمند میں جولائی کا پورا مہینہ اور اگست کا پہلا ہفتہ طالبان کی طرف سے روزانہ سات کار بم دھماکے برداشت کرتے رہے مگر اس کے باوجود ہم نے میدان جنگ سے پسپائی اختیار کرنے سے انکار کردیا۔

میں یہاں تیسرے فیکٹر کو بالکل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ تھا کرپشن کا مسئلہ، حکومت کے ہر شعبے میں اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی دیدہ دلیری سے کرپشن ہورہی تھی کہ ہرجگہ اس کے دستاویزی ثبوت موجود تھے مگر امریکی کرپشن کے تدارک کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، تاہم اس برائی نے ہماری حکومت اور فوجی قیادت سمیت سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ میں کرپشن کو اپنا حقیقی قومی المیہ قرار دے سکتا ہوں۔ ہماری قیادت میں شامل رہنماؤں کی اکثریت جن میں ہماری عسکری ہائی کمان بھی شامل ہے، کرپشن کے دلدل میں پھنس گئی تھی، فوج میں تو صورتِ حال اس قدر خراب ہوچکی تھی کہ اس میں تقرری قابلیت یا استعداد کے مطابق نہیں بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ ان تقرریوں نے ہماری قومی فوج پر تباہ کن اثرات مرتب کیے کیونکہ ہماری قیادت کے پاس اتنا مؤثر عسکری تجربہ نہیں تھا یا یہ کہ وہ جن نوجوانوں کو اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے یا قربانی دینے کے لیے کہہ رہے تھے ان میں اعتماد اور جذبے کی روح نہ پھونک سکے۔ فوج کو اشیائے خورد ونوش اور تیل کی سپلائی کا سسٹم بگڑ چکا تھا، کرپشن پر مبنی کنٹریکٹس الاٹ کرنے کی وجہ سے ہمارے جوانوں کا مورال اس قدر تبا ہوگیا کہ وہ طالبان کے خلاف لڑنے سے پہلے ہی حوصلہ ہار گئے۔ طالبان کے خلاف ہماری لڑائی کے آخری دن تو بہت ہی زبردست تھے۔ ہم زمین پر طالبان کے خلاف ایک شدید جنگ میں مصروف تھے جبکہ امریکی جنگی جہاز ہماری سروں کے اوپر محض ہمارا تماشا دیکھنے کے لیے محو پرواز رہتے تھے ہمارے اندر دھوکے اور بے یارو مدگار چھوڑے جانے کا احساس درحقیقت ان جنگی لڑاکا طیاروں کے پائلٹس کی مایوسی کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا جو جہاز سے زمین پر جاری جنگ کو دیکھ رہے تھے مگر وہ ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر تھے۔

ایک طرف طالبان کے حملوں میں بہت شدت آگئی تھی تو دوسری طرف میرے فوجی جوان مجھ سے سوال کررہے ہوتے تھے کہ ہم ان اڑتے ہوئے امریکی جنگی جہازوں کی گھن گرج تو سن رہے ہیں مگر یہ ہمیں فضائی سپورٹ کیوں نہیں فراہم کررہے؟ یہ ساری صورتِ حال دیکھ کر میرے جوانوں کا مورال زمین بوس ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے افغانستان میں برسرپیکار افغان فوجیوں نے طالبان کے خلاف جنگ بند کردی۔ لشکرگاہ کے محاذ پر ہماری طالبان کے ساتھ انتہائی خونزیز جنگ ہوئی مگر چونکہ باقی پورے ملک پر طالبان کا بہت تیزی سے قبضہ ہوگیا تو ہم اس جنگ کے دوران ہر طرح کی سپورٹ اور سپلائی سے محروم ہوچکے تھے اس لیے ہمارے جوان پسپائی اختیار کر کے اپنے اڈوں پر واپس آنے پر مجبور ہوگئے۔

مجھے کابل بلائے جانے کے بعد بھی میری کور نے دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھی اور سب سے آخر میں اس وقت اپنے ہتھیار واپس کیے جب طالبان کے ہاتھوں کابل فتح ہوگیا تھا یہ کہنا مناسب نہیں کہ یہ ایک افغان جنگ تھی، میں یہ ایک بین الاقوامی جنگ تھی جس میں بہت سے ممالک کی فوجیں شرکت کررہی تھیں ہمارے طرح یہ کسی بھی اکیلی فوج کے لیے ناممکن ہوتا کہ وہ اس جنگ کو شروع کرتی اور لڑتی بظاہر یہ ایک فوجی شکست ہی نظر آتی ہے مگر اس شکست نے دراصل سیاسی شکست سے جنم لیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں


بشکریہ: نیویارک ٹائمز انتخاب، دنیا ریسرچ سیل، مترجم زاہدرامے