بین الاقوامی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 20 برس کے دوران انسانی حقوق کے ضمن میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں ایک ماہ قبل طالبان کے ملک پر کنٹرول کے بعد ان کے رائیگاں جانے کا خطرہ ہے۔
بین الاقوامی اداروں ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس اور ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (او ایم سی ٹی) نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ طالبان انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو تیزی سے تہہ و بالا کر رہے ہیں۔
پیر کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں طالبان کا بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لینے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
طالبان کے تمام افغان شہریوں کو حقوق کا احترام کرنے کے دعوؤں کے باوجود رپورٹ میں تفصیل سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں خواتین، آزادی اظہار اور سول سوسائٹی پر پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا دینوشکا دیسانائک نے کہا ہے کہ افغانستان پر پانچ ہفتے قبل اپنا کنٹرول جمانے کے بعد سے طالبان نے ظاہر کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ان کے بقول پہلے ہی انتقامی حملوں سے لے کر خواتین پر پابندیوں تک، مظاہرین کی پکڑ دھکڑ سے میڈیا اور سول سوسائٹی کے خلاف کارروائیوں کی ایک لہر دیکھی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 15 اگست کو جب سے طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے ہیں اور جب سے انہوں نے تقریباً پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس کے بعد سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے خلاف روزانہ حملے رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق طالبان گھر گھر جا کر انسانی حقوق کے کارکنوں کو تلاش کر رہے ہیں جس سے کئی ایک لوگ روپوش ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
خوف کے ماحول، موبائل رابطوں میں کمی اور طالبان کے انٹرنیٹ کے بلیک آوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں وہ افغانستان میں موجود صورتِ حال کی محض ایک تصویر ہو سکتے ہیں۔
او ایم سی ٹی کی پروگرام ڈائریکٹر ڈیلفین ریکولیا نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے وہ اپنے اخلاقی اور سیاسی وعدوں کی پاسداری کریں اور ان لوگوں کو ناکام نہ ہونے دیں جنہوں نے اپنی زندگیاں انسانی حقوق، صنفی مساوات، قانون کی حکمرانی اور جمہوری آزادیوں کے لیے وقف کی۔ انہیں ہر قیمت پر تحفظ دیا جانا چاہیے۔
طالبان نے فوری طور پر اس رپورٹ پر اپنے ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔
پیر کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے وزارتِ برائے امور خواتین کو اس وزارت سے تبدیل کر دیا ہے جس کا مقصد اخلاقیات کو فروغ دینا ہے۔
امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے طالبان سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ طالبان کے کنٹرول والی حکومت میں فریقین کی نمائندگی ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ طالبان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں اور ایک مرتبہ پھر سخت اسلامی قوانین کے نفاذ سے گریز کرے تاکہ افغانستان کو بین الاقوامی تنہائی سے روکا جا سکے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرے اور وہ کابل میں انسانی حقوق کے اعتبار سے یک طرفہ تنقید کرنا بند کر دے۔