افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے کہا وہ پندرہ اگست کو طالبان کے غیر متوقع طور پر کابل شہر میں داخل ہونے کے بعد اچانک شہر چھوڑ کر جانے پر افغان عوام کو وضاحت دینا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا وہ صدارتی محل کی سیکیورٹی کی جانب سے مشورے کے بعد شہر کو 1990 کی خانہ جنگی جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے وہاں سے چلے گئے تاکہ سڑکوں پر خوفناک لڑائی نہ چھڑ جائے۔
اپنے بیان میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’کابل کو چھوڑنا میرے لیے زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا لیکن بندوقوں کو خاموش رکھنے اور کابل کے ساٹھ لاکھ شہریوں کو محفوظ رکھنے کا یہی واحد راستہ تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا میں نے اپنی زندگی کے بیس سال افغان لوگوں، جمہوریت اور ریاست کی بقاء کے لیے کام کرنے کے لیے وقف کردیے۔ اپنے لوگوں اور اپنے نظریے کو چھوڑنے کا میرا ہرگز کبھی ارادہ نہیں تھا۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے چلے جانے کے واقعات کی تفصیلات بتائیں تاہم وہ اس بارے میں مستقبل قریب میں تفصیلات فراہم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان پر افغان عوام کی ملکیت لاکھوں ڈالرساتھ لے جانے بے بنیاد الزامات کی وضاحت دینا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ الزامات مکمل طور پر اور قطعی غلط ہیں۔
ان کہنا تھا کہ کہ بدعنوانی ایک طاعون ہے جس نے ہمارے ملک کو دہائیوں سے سے جکڑ رکھا تھا اور بحیثیت صدر میری توجہ کا مرکز بد عنوانی کا خاتمہ تھا، مجھے یہ عفریت ورثے میں ملی جسے شکست دینا آسان نہیں تھا۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے اثاثے سے ظاہر کیے گئے تھے اور انھوں نے پیش کش کی کہ اقوام متحدہ یا کسی آزاد ادارے سے وہ اپنا سرکاری آڈٹ یا معاشی تحقیقات کروانے کو تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے قریبی اتحادی بھی اپنا معاشی آڈٹ کرانے کو تیار ہیں۔ انھوں نے دیگر سابق سینیئر حکام اور سیاسی شخصیات سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔
اپنے بیان میں اشرف غنی نے تمام افغانوں خصوصاً افغان فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی گذشتہ 40 سال کے دوران قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان قربانیوں کا یہ باب بھی اسی المیے پر ختم ہوا جو ان کے آباء و اجداد کو دیکھنا اور ان کے ملک کو استحکام نہ مل سکا۔