اشارے مل رہے ہیں – منظور بلوچ

656

اشارے مل رہے ہیں

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ سولہ ستمبر کی سہ پہر ہے ٹھیک چار بجے بلوچستان اسمبلی کا اجتماع ہوگا ۔ کیونکہ پارلیمان کی حکومت کے اس کھیل میں اتار چڑھاو تو آتے ہیں ۔ پاکستانی پارلیمانی حکومتوں میں سمبندھ ہمیشہ سے عارضی ہوتے ہیں ۔ اس سے قبل جام حکومت کی تبدیلی فقط ایک خواب تھا۔ اس خواب کا آغاز 2018ء کے انتخابات سے ہوا تھا ۔

شطرنج کے اس کھیل میں انتخابات سے لے کر اب تک جام اور مینا ایک ہی ہاتھوں میں چھلکتے رہے ہیں ، پیادوں کو بوقت ضرورت آگے بڑھانا ، پیچھے لے جانا ، ان کی قربانی کی اھمیت نہیں ہوتی ، لیکن بسا اوقات ایک ایک پیادے کی قیمت جاگ اٹھتی ہے اور اس کی اہمیت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔

اس سے قبل کہ بادشاہ چیک میٹ ہوجائے اگر وزیر کی قربانی دینی پڑی ، تو کون سا کھلاڑی ایسا نہ کرنے سے دریغ کرے گا ۔

دل چسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک بات تحریک عدم اعتماد تک کیسے پہنچ گئی ، اور وہ بھی ایک ایسے وزیر اعلی کی ، جو عمران خان کا ہیرو رہا ہے ، کرونا وباء سے قبل عمران خان کو حاکموں نے کہہ دیا تھا کہ اگر انھیں اپنی حکومت برقرار رکھنی ہے تو تین شخصیات کو ان کے دفتر سے بے دخل کرنا ہوگا ، اس میں سرفہرست ہمارے بلوچ ، بزدار صاحب ، وزیر اعلی پنجاب تھے ، اس کے بعد خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلی محمود خان اور عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان شامل تھے۔

لیکن سیاسی کھیل میں جس طرح سردار اختر مینگل ہمیشہ خوش نصیب رہے ہیں ، ہر بحران کے موقع پر ان کو کوئی معجزاتی سہارا ملتا رہا ہے ، اسی طرح عمران خان کی قسمت بھی انھیں ڈوبنے سے بچاتی رہی ، اور اب تک مذکورہ تینوں شخصیات اپنے دفتروں میں پائے جاتے ہیں ۔

اور جس وزیر اعلی کو سب کا فیورٹ کہا جاتا تھا ، لگ رہا ہے کہ پہلی چوٹ اس کو لگے گی ، سندھ کی وزارت کا معاملہ مختلف ہے ، عمران خان نہ چاہتے ہوئے بھی مراد علی شاہ کو ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں ۔

اشارے ملے ہیں تو تحریک عدم اعتماد’’ اچانک‘‘ سے کسی کی جیب سے برآمد ہوکر اسمبلی کی راہداریوں تک پہنچ گئی ہے ۔

گزشتہ شب سابق وزیر صحت نصیب اللہ مری نے ’’ جوڑ توڑ ‘‘ کھیل میں شریک کھلاڑیوں کیلئے ایک پر تکلف عشائیہ دیا، جن میں حکومتی تبدیلی پر بات چیت کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا، جس میں باپ پارٹی کے بھی بہت سے اراکین شامل تھے ، جن میں سے کچھ جام کمال کے بہت وفادار ساتھی بھی شمار ہوتے ہیں ۔ شطرنج کی بساط پر اچانک ’’ کھیل اور کھلاڑ ی ‘‘ پیادے اور وزیر سارے ادھر سے ادھر ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔

بادی النظر میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ( پی ایم ڈی اے ) ہو یا تحریک عدم اعتماد ، ان کے سرے کہیں نہ کہیں افغانستان میں اشرف غنی کے’’ اچانک‘‘ جانے سے طالبان کے’’ اچانک ‘‘کابل پر قبضہ سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

اگر جام حکومت کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے یا وہ وقت سے پہلے مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات اسلام آباد تک نظر آئیں گے ۔ طالبان اور جے یو آئی ف کا چشمہ ایک ہے ، سمیع الحق کے بعد مولانا فضل الرحمان ’’ گاڈ فادر ‘‘ بن چکے ہیں ۔ کل تک وہی مولانا فضل الرحمان ، جنکو اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار عمران خان نے اقتدار کی گلیوں سے نکال باہر کیا تھا ، اب ایک مرتبہ پھر قسمت کی دیوی انھیں ازخود اقتدار کی گلی کی جانب نہ صرف بلا رہی ہے بلکہ ان کے استقبال کیلئے ریڈ کارپٹ بچائے جا رہے ہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے طالب کابل کے تخت پر بیٹھیں اور مولانا حاشیے پر رہیں ۔

وقت وقت کی بات ہے ، کل تک انھیں عمران کو چیلنج کرنے کیلئے ’ پی ڈی ایم ‘ کی ضرورت تھی ، آج ان کی اپنی ذات ’ پی ڈی ایم ‘ کی تمام جماعتوں سے بڑی ہو گئی ہے ۔ اور پی ڈی ایم تمام تر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص ن لیگ کے ، ان کی ذات کے سامنے چھوٹی پڑ گئی ہے ۔

پی ڈی ایم کے جلسوں اور جلوسوں نے عمران حکومت کو پریشانی میں مبتلا کیئے رکھا تھا ، لیکن پیپلز پارٹی اور اے این پی نے اپنی اپنی وزارتوں کی خاطر اپوزیشن کے اس اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔

پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی قربانی دینے کو تیار نہیں تھی اور زرداری اپنی زندگی میں ایک بار بلاول کو وزارت اعظمی کے منصب پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ جبکہ اے این پی نے بلوچستان حکومت میں فقط دو وزارتوں کیلئے اپوزیشن کے اس بڑے اتحاد کو بڑا نقصان پہنچایا تھا ۔

جو اشارے مل رہے ہیں ، اس کے تحت کابل میں اقتدار کی تبدیلی کے باعث بلوچستان میں جے یو آئی ف کو انٹرٹین کرنا ناگزیر ہے ۔ بی این پی کے اراکین اور دیگر کے چہروں پر مسکراہٹ اپنی جگہ، اصل میں بکرا فقط جے یو آئی کی خاطر کاٹا جا رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بکرا کٹنے کے بعد بٹے گا کس طرح اور کیسے بیٹھے بٹھائے وزارت اعلی کا کبوتر قدوس بزنجوکے سر پر بیٹھے گا ۔ یہ تو قسمت کی بات ہے ۔

اور قدوس بزنجو بی این پی کے چہتے بھی ہیں، ماضی قریب میں ثناء اللہ زہری کے ساتھ یہی کھیل قدوس بزنجو کی خاطر کھیلا گیا ۔ جس میں بی این پی پیش پیش تھی ۔ اور یہیں سے باپ پارٹی کا ظہور ہوتا ہے اور سینیٹ میں سنجرانی چئیرمین بن جاتے ہیں ۔

اس کھیل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی وفات کے بعد پارٹی کی جانب سے چالیس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ اس دوران کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا جائے گا ۔ بی این پی کے بعض لیڈر ، جو بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ممبر ہیں ، ان کی رونی جیسی شکلیں ہمیں یاد ہیں جب وہ ترجمان کی حیثیت سے سوگ کا اعلان کر رہے تھے ۔ لیکن چالیس روزہ سوگ کے دوران تحریک عدم اعتماد کی سیاسی سرگرمی میں بی این پی پیش پیش ہے ، رونی صورت والے چہرے اب چھپائے نہ چھپے چہروں پر آنے والی خوشی کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے شب و روز مصروف عمل ہیں ۔

سوگ کا اعلان کہاں کیا گیا; بی این پی کے کارکن یہ سوال اپنے لیڈروں سے کیوں نہیں پوچھ رہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل جیسی شخصیت کے انتقال پر جہاں پوری بلوچ عوام سوگوار ہے اور ان کی پارٹی کو وزارتوں کی فکر پڑی ہوئی ہے ۔ شاید یہ اب بکرا کٹنے کے اشارے کے باعث سردار مینگل ، ان کی جدوجہد اور یادوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ اب کی بلا سے ، ان کو تو اپنا سیاسی مستقبل عزیز ہے ، پارٹی نے سردار مینگل کے نام پر بہت کمایا ، اور 2023 ء کے انتخابات بھی ان کے نام کے سہارے ہی کام یابی حاصل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ عوام تو بھول جائیں گے لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ سارے اراکین اسمبلی جو سردار صاحب کی وفات کے سوگ کو بھلا کر تحریک عدم اعتماد کے سرگرمیوں میں خاصے پرجوش ہیں ، وہی لوگ 2023 ء میں سردار مینگل کے قد آدم تصویروں ، ان کی جدوجہد ، ان کی یادوں کے ذریعے عوام سے ووٹ بٹوریں گے ۔

2023 کی تب کی تب دیکھی جائے گی ، فی الحال بکرے کی کٹنے پر دھیان ہے ، مولانا فضل الرحمان بھی طم طراق کے ساتھ بلوچستان پہنچ چکے ہیں ، گو کہ پاکستانی سیاست میں پکی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی ہے ہر مرتبہ تجزیہ کاروں کے تجزیے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ، اور ان کو سرپرائز ملتا ہے ، دونوں صورتوں میں کامیابی اور ناکامی کاسرپرائز ضرور ملے گا ۔

جیسے کہ پہلے کہا گیا کہ اب پاکستان کے اقتدار کے گلی کوچوں میں جے یو آئی ف کی موجودگی ناگزیر ہے ۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کی حکومت میں جس جوش و جذبہ کے ساتھ ن لیگ ، زرداری سمیت اشرافیہ اور بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو دیوار سے لگایا گیا ۔ ان کی ’’سیاسی کردار کشی‘‘ کی گئی ، ان کو ان کی سرکاری رہائش گاہ سے نکالا گیا ، اس وقت حکمران بھول گئے تھے کہ اچانک پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے ، اور پانسہ پلٹ چکا ہے ، سارے ایکے از خود مولانا کے پاس آچکے ہیں ۔ حتی کہ ’ پی ڈی ایم ‘ کے جزوی اور جے یو آئی کے خصوصی مخالف ، نکتہ چین ، نقاد اور طنزنگار حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی کے پاس بھی کچھ نہیں بچا ، حافظ حسین احمد عمر کے اس آخری حصہ میں اپنی ذہانت کی نرگسیت کے ہاتھوں مات کھا گیا ۔ اب ان کی حالت زار کیا ہے ،ہم نہیں جانتے ۔

تحریک عدم اعتماد کس کروٹ بیٹھے گی ، حتمی بات کہی نہیں جا سکتی ،لیکن افغانستان کی نئی صورت حال کے پیش نظر ’’اچانک ‘‘کا یہ کھیل کھیلے جانے کے باوجود بہت کچھ بول رہا ہے ۔ ’ جوڑ توڑ ‘ کے اس کھیل میں ابھی سے وزارتوں کی تقسیم پر بات چیت کا طویل سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے ۔ یعنی بکرا کٹے گا تو بٹے گا ، سے پہلے ہی بٹنے کی تاڑ میں بیٹھے لوگ کل کے سہانے سپنے دیکھ رہے ہیں ، تبدیلی کی صورت میں امیدوار فی الحال قدوس بزنجو ہیں ، لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا ، اس کے بعد جو سب سے اہم وزارت ہے ، وہ سینئر وزیر کی ہے ، اس کے ممکنہ طور پر تین امید وار ہو سکتے ہیں ، تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے ۔ ان تین امیدواروں میں ایک تو اپوزیشن لیڈر ملک سکندر جنکا تعلق جے یو آئی ف سے ہے ،جنکی پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے اتنی بڑی قربانی یعنی جام کمال کی دی جا رہی ہے ۔ دوسرے امیدوار بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی ہو سکتے ہیں ۔ اور تیسرے ممکنہ امیدوار سسٹم کے ’ چہیتے ‘ ثناء بلوچ ہو سکتے ہیں ۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ سسٹم کے’’ چہیتے ‘‘کو وزارت اعلی کا خواب بھی آ رہا ہو ، اور یہ کوئی نا ممکن بات تو ہے ہی نہیں ، ان میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں ، جو جام اور بزنجو میں بدرجہا اتم پائی جاتی ہیں ، اس لئے اگر وہ وزارت اعلی کے خواب دیکھ رہے ہیں تویہ حیرت انگیز اس لئے بھی نہیں کہ انھوں نے ’’ موقع شناسی ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے سردار مینگل کے سوگ کے چالیس روز کا انتظار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ۔ جہان تک سردار عطاء اللہ مینگل کی شخصیت ، جدوجہد کا معاملہ ہے تو وہ بلوچ عوام کی محبت ہے ، ان سے پارٹی کا سروکار اتنا بنتا نہیں ۔ اگر بنتا بھی ہے تو ان کے نام کو بعد از رحلت کیش کس طرح کیا جا سکتا ہے ۔ بلوچ عوام کی محبت کو نظام کے’’ چہیتوں ‘‘ نے اوپن چیک کی طرح اپنی جیب میں ڈال رکھا ہے ۔ اور بی این پی سے بے غرض محبت اور تعلق رکھنے والے کارکن ، عہدیدار اور سارے لوگوں کو لگتا ہے کہ سانپ سونگھ گیا ہے ، وہ اپنے رہنماؤں کے سامنے یہ سوال اٹھانے کا سوچ بھی نہیں رہے ہیں ۔ یہی سارے لوگ جو بی این پی پر ہونے والے کسی تنقید پر فیس بک میں مورچہ بنا کر اپنے نام سے اور فیک آئی ڈیز سے بی این پی کی سیاست پر سوال اٹھانے والوں پر جس طرح گھات لگا کر حملہ آور ہوتے ہیں ، آج ان کی زبانوں پر تالے کیوں لگے ہوئے ہیں۔

ان لوگوں کی یہاں بات نہیں ہو رہی ہے جو’’چہیتوں ‘‘کی طرح موقع شناس ہیں ، اور خوش ہیں کہ وزارتوں کی صورت میں ان کو سبز رنگ کی ٹینکیاں اور ٹف ٹائل کے ٹھیکے نظر آ رہے ہیں ، وہ اس عمل کو خوش آمدید کہیں گے ، کامیابی کی صورت میں مٹھائیاں بانٹی جائیں گی ۔

لیکن یہاں سوال سوگ منانے والوں سے ہے ، وہ لوگ جو واقعتا بی این پی سے بے لوث لگاوَ رکھتے ہیں ، جنکو سردار عطاء اللہ مینگل سے محبت ہے ۔ جو سردار اختر مینگل کی صورت میں سردار عطاء اللہ مینگل کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کی چپی حیران کن ہے ، ان کے تند و تیز تیشے کند کیوں ہو گئے ہیں؟ کیا ان کو یہ چھوٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ کیا وہ سردارعطاء اللہ مینگل کی پارٹی کو باپ پارٹی کے سائے میں دیکھنے کے روادار ہیں۔ کیا وہ سردار مینگل کی جدوجہد کو کم داموں میں فروخت کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے؟

جس طرح سے سردار عطاء اللہ مینگل بلوچوں کی محبت ہیں ، بلوچ عوام کا اثاثہ ہیں ، اسی طرح وہ تمام سیاسی جماعتیں جو بلوچ کاز کی چمپئین بنتی ہیں ، وہ بھی دراصل چند ایک شخصیات یا گروہ کی جاگیر نہیں ہوتے ، ان کے اصل مالک تو ان کے کارکن ، ہمدرد اور عوام ہوتے ہیں ۔ سردار عطاء اللہ مینگل محض ایک خاندان یا ایک پارٹی کے رہنماء نہیں تھے ، اس حوالے سے آپ فرق ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ پارٹی اور نظام کے ’’چہیتے ‘‘ ثناء بلوچ اسمبلی اور اسمبلی سے باہر سردار عطاء اللہ مینگل کو فقط بی این پی کے لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں ، جبکہ جام حکومت کے وزیر اسد بلوچ نے اپنی ایک تقریر میں اس کے برعکس بات رکھی کہ سردار عطاء اللہ مینگل کو صرف ایک پارٹی کے لیڈر کے طور پر پیش کرنا خود سردار صاحب کی شخصیت کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ پوری بلوچ قوم اور محکوم عوام کے نجات دہندہ اور قائد تھے ۔

وہ تمام سیاسی کارکن ( اگر واقعتا موجود ہیں ) تو ان کو اس فرق پر بات اٹھانی چاہیے تھی ۔ لیکن لگتا ہے کہ ان کی سیاسی تربیت اور سیاسی شعور میں کمی اور خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ بہر حال اب یہ بات ماننا ہوگی کہ واقعتا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔

افغانستان کے تناظر میں بلوچستان پر پڑنے والے اثرات کتنے دور رس ہونگے؟ جے یو آئی کو کٹنے والے بکرے میں سے کتنا حصہ ملے گا ، غالبا بائیس ستمبر تک ،یا اس سے پہلے واضح ہو جائے گی ۔

اس کھیل کے تمام کھلاڑی اور پیادے بھی صاف دکھائی دیں گے ، اس ناگزیر قربانی کا اصل حکمرانوں کو البتہ یہ فائدہ ضرور ملے گا ، کہ جام کی تبدیلی کی صورت میں وقتی طور پر ہی سہی ، عوام خوش ہو جائیں گے ، گو کہ شراب وہی پرانی ہو گی ، اور بوتل بھی نیا نہیں ہوگا ۔ لیکن حالات کے مارے لوگوں کیلئے یہ تبدیلی بھی سکھ کا سانس ثابت ہو گی ۔ اور بے چارے عوام ساری زندگی اسی ’’ بونس ‘‘ کے سہارے زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں ۔

فائدہ اٹھانے والے فائدے اٹھائیں گے اور ایک مرتبہ پھر حکومت کی تبدیلی کی ممکنہ صورت میں اخبارات کے رنگین ضمیموں میں اضافہ ہوگا ۔

اور عوام کو یہ مژدہ سنایا جائے گا کہ بلوچستان کی ترقی کا عمل اب شروع ہونے والا ہے ۔ بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے چیختے چنگھارتے نعرے پھر سے نئی زندگی حاصل کر لیں گے اور ہ میں بتایا جائے گا کہ بلوچستان میں ترقی کا سفر کا آغاز ہوچکا ہے ، ماضی کی حکومتوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا ، عوام کو ان کی زندگی کی بنیادی سہولتیں ان کی دہلیز پر مل جائیں گی ، تعلیم کیلئے نئے منصوبے لائے جائیں گے ، بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا ، عوام کو صحت ، تعلیم ، بجلی اور گیس اور پینے کا صاف پانی حکومتی ترجیحات میں سر فہرست ہونگی ۔ نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے ، بلوچستان بھر میں ڈیمز کاجال بچھایا جائے گا ۔ اور آخر میں پھر وہی سلوگن کہ اب بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی ۔ بلوچستان میں خوشحالی کی دور دورہ ہو گا ، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئیں گے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleآواران: گشانگ میں پاکستانی فوجی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف
Next articleخضدار: پاکستانی فورسز کا گھر چھاپہ،خاتون جانبحق
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔