بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کمیپ کو 4425 دن مکمل ہوگئے، اس موقع پر بی ایس او کے وائس چئیرمین محمد اشرف بلوچ جنرل سیکرٹری عظیم بلوچ شکور بلوچ و دیگر نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج کی جارجیت و نہتے بلوچوں کا قتل پاکستان کی جارجیت کی ایک اور مثال ہے ڈیرہ بگٹی کوہلو کاہان سے لیکر تربت مند گوادر بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں ریاستی جبر اور ستم سے لوگ محفوظ ہوں-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جیسے پہلے ریاستی ادارے اپنے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے مدد سے لوگوں کو لاپتہ کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکتے تھے اج یہی عمل سی ٹی ڈی کے زریعے انجام دیکر لاپتہ افراد کے لواحقین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پرامن احتجاج سے دستبردار ہوجائیں پر تاریخ گواہ ہے کہ قتل و غارت سے کسی مظلوم قوم کو خاموش نہیں کرایا جاسکتا اس ظلم سے بلوچ لاپتہ افراد کے پرامن احتجاج کو مزید تقویت مل رہی ہے –
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے عالمی دن پر جہاں دنیا جبری گمشدگیوں کے خلاف اظہار یکجہتی کا اظہار کررہا تھا وہیں دوسری جانب ہزاروں بلوچ نوجوان پاکستانی عقوبت خانوں میں تشدد سہ رہے تھے جنہیں پاکستانی ادارے تشدد کا نشانہ بنا کر مسخ شدہ لاشوں کے صورت میں اجتماعی قبروں میں دفن کرتے ہیں –
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ اقوام عالم و انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں پاکستانی وحشت کے گواہ ہیں لیکن ان اقوام و اداروں کے جانب سے بلوچ نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی افسوس ناک عمل ہے –