نظریہ انصاف اور سماجی انتخاب – شاہ زیب بلوچ

219

نظریہ انصاف اور سماجی انتخاب

تحریر: شاہ زیب بلوچ ایڈووکیٹ
مرکزی آرگنائزر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی

دی بلوچستان پوسٹ

سماجی انتخاب ایک نظریاتی ڈھانچہ ہے جس کا مقصد سماج میں موجود تمام انفرادی رائے پرتجزیہ کرتے ہوئے معاشرے کے فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی فیصلوں تک پہنچنا ہوتاہے جس کے لئے قانون بنائے جاتے ہیں اورآئین کی روشنی میں اجتماعی فیصلوں کو عملدرآمد کرایاجاتاہے۔ بنیادی طورپر آئین وقوانین کو عملدرآمد کرانے کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے جو جمہوری تقاضوں کو مکمل ہوجانے کے بعد سماج کے بہتری کیلئے نظریاتی رشتوں کو مضبوط ومستحکم بناتے ہیں۔

فطری ریاستوں کے اندر سماجی انتخاب ایک حقیقی عمل ہے جس میں عوام کو مکمل آزادی و برابری کا حق حاصل ہوتاہے کہ وہ اظہار رائے دے سکیں، تجزیہ کرسکیں، سوال پوچھ سکیں یا دلیل کے ذریعے” وجہ” بیان کرسکیں۔ استد لال یعنی وجوہات کو بیان کئے بغیرنظریہ انصاف کی عملدرآمدی ناممکن ہوتاہے کیونکہ اس کے بغیر جانچ پڑتا ل کرنا کسی بھی معاملے کے حوالے سے بے معنی اور بے مقصد ہوگا، جس کے لئے ضروری ہوتاہے کہ حقیقی رویوں پر توجہ دے کر انصاف کو وجہ بیان کرتے ہوئے فراہم کیا جائے کیونکہ انصاف اورناانصافی کے مابین بنیادی فرق یہی استدلال یعنی “وجہ”ہوتی ہے۔ لہٰذا تصورات کے بنیاد پر انصاف بے وقعت اور بے معنی ہوتاہے اور اس کی اہمیت کاغذوں پر لکھے حروف سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

نظریہ انصاف کیلئے احساس کا ہونا ضروری ہے تاکہ اس کی عمل پزیری ممکن بنایاجاسکے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ صرف دکھاوے کیلئے قوانین بنائیں جائیں تو سماجی معاملات بے ترتیب ہوتے ہوئے ایک فرسودہ معاشرے کی شکل اختیار کرجاتی ہیں جو آئندہ آنے والے دنوں میں بدترین سیاسی ومعاشی بحرانوں کے شکنجے میں جکڑ جاتے ہیں اس لئے نظریہ انصاف کو صرف حروف تک محدود کرنے کی بجائے ایک بڑی سماجی تبدیلی کیلئے انصاف کے دائرے کو وسیع کرنا ہوگا جبکہ عام آدمی کو اپنے سماجی انتخاب میں برابری اور منصفانہ نظام تک مکمل رسائی دینا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر معاملے کے جانچ پڑتال کیلئے مضبوط مناظرے کروائے جائیں، تنقیدی جائزہ لیاجائے، اجتماعی اصولوں پر معاملات کی نگرانی ہو، غیرجانب دار رویہ ہو اور اداروں کے اندر موجود کوتاہیوں اور قابل علاج ناانصافیوں کے خلاف ایک شدید نوعیت پر مبنی تجزیہ ہو جو کہ صرف ایک فطری، اصولی وجمہوری ریاستوں کے اندر ممکن ہیں۔

جمہوری رویہ اور بین الاقوامی مثبت سوچ کو اپنا کر انصاف کی فراہمی کو آسان کرکے عملدرآمد کرایا جاسکتاہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عوامی اداروں کو مجبورکیا جائے کہ وہ “اظہار رائے” کے بنیادی حق کو یقینی بناسکے، سماجی انتخابی معاملات کا باالواسطہ تعلق معاشرے کو منظم ومستحکم رکھنے کیلئے بہترین اداروں اور ان اداروں کے اندر موجود مکمل انصاف کے نظام سے ہیں۔ فطری مراحل سے گذر کر بین الاقوامی سطح میں انہیں اصولوں کو اپناتے ہوئے بڑے پیمانوں پر مثبت سماجی تبدیلیاں لائے گئے ہیں اور ریاستوں کو خود مختار بناتے ہوئے بہترین سیاسی ومعاشی اصلاحات کو ممکن بنایاگیا ہے۔ ایکسویں صدی میں آج بھی دنیا کے اندر کئی ممالک جدید نوآبادیات یا ان کے اندر موجود محکوم اقوام نوآبادیات کی منظرکشی پیش کررہے ہیں جہاں بالخصوص غلامی کی زنجیروں میں جکڑے اقوام اپنے سماجی انتخابی اصلاحات کو صرف انقلابی طرز پر قائم سیاسی مزاحمت کے ہی ذریعے ممکن بناسکتے ہیں کیونکہ سامراج اور ان کے کاسہ لیسوں کے سامنے”طاقت”ہی ایک بنیادی دلیل ہوتاہے اور جمہوری رویوں کو سمجھانا استعمار کے لئے بے مطلب اور وقت کا ضیاع ہوتاہے لیکن ایک آزاد، خودمختار ریاست کے اندر سماجی انتخاب ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے معاشرے بہترین حکمت عملی قائم کرکے تخلیقی و تکنیکی تبدیلی لاسکتے ہیں یا جبکہ محکوم اقوام یا نوآبادیات انہیں اصولوں کو اپنے انقلابی تحریکوں یا سیاسی تنظیموں کو منظم کرنے کیلئے استعمال میں لاکر استعماریت وغلامی سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

آزادی ایک معاشرے کیلئے بہتر زندگی گذارنے کا ذریعہ ہے لیکن آزادی کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہم ذمہ دار رویہ اختیار کرکے عمل کی طرف گامزن ہوں جو کہ مکمل انصاف اور بہترین عوامی اداروں کے ذریعے ہی ممکن ہیں لیکن جب ایسی صورت فاالفور موجود نہ ہوں تو سماجی انتخابی نظریاتی ڈھانچے کو نئے اور متبادل راستوں سے گذار کر مختلف مراحل اور اس کی تعمیر وترقی کیلئے ترقی پسندانہ طرز پر حکمت عملی بنایاجاسکتاہے جس میں عوامی استدلال، اقدار اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے نت نئے طریقے عمل میں لائے جاسکتے ہیں۔ یہاں پر وضاحت لازمی ہے کہ جمہوری رویوں کا احساس سماجی انتخابی اصلاحات کی بنیاد ہے اگر معاشرہ آپس میں طاقت کو دلیل بنا کر معاملات کی نگرانی کرے گا تو یہ صرف ایک طبقاتی بحران پیدا کرکے خود کو استعماریت کے چنگل میں دھکیل دے گا؛ لہٰذا ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر انتشار سے بچنے کیلئے اپنے باہمی معاملات میں مثبت بین الاقوامی سوچ اختیار کرتے ہوئے نظریہ انصاف کے اصولوں کو عمل میں لایا جائے اور سماجی انتخاب، اصلاحات اور تعمیر وترقی کے لئے اظہار رائے کااحترام کیاجائے اورصبروبرداشت کا ماحول بنا کر ہی ہر طرح کے مثبت وبہتر تخلیق کیلئے تکنیکی تبدیلی لایا جاسکتاہے۔

معاشرے زوال کا سبب اس وقت بنتے ہیں جب وہ اپنے سماج کو تنگ نظری کی طرف دھکیل کر انفرادی بالادستی کو قائم کرتے ہیں۔ جب معاشرے میں موجود انفرادی رائے کو اجتماعی فیصلوں میں تبدیل کرکے عوامی فلاح وبہبود کیلئے استعمال میں لانے کے بجائے حاکم ومحکوم پر مبنی دونوعیت اجزا میں تقسیم کیا جائے ایسے سماج صرف ظلم وبربریت کا نظام قائم کرکے معاشروں کو بدنظمی ومنفی رویوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں، اور اس طرح کے حالات اکثرنوآبادیاتی پالیسیوں کی پیداکردہ معاملات ہوتے ہیں جس کا مقصد انتشار قائم کرکے سماج کے اندر طبقاتی بحران پیدا کیاجاسکے تاکہ انتخابی اصلاحات کے نتائج کے استعمار کو خواہش کے مطابق تبدیل کیئے جاسکیں۔

اب معاشرے میں موجود عوامی اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے رویوں کو مثبت اور جمہوری اصولوں پر گامزن کرتے ہوئے مکمل انصاف اور سماجی انتخاب کا ایک خوبصورت عکس پیش کریں تاکہ عوام کے اندر موجود تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کرکے نوآبادیاتی تسلط، ساتھ ساتھ ہرطرح کی سامراجیت کو ختم کیا جانا ممکن بنایا جاسکے جس کی پہلی سیڑھی” مثبت اظہار رائے” قائم کرکے ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رشتہ جوڑا جائے اور تنقید کو صرف برائے تعمیر کیلئے استعمال میں لایا جائے تاکہ سماج میں موجود منفی رویوں کا راستہ روک کر ترقی پسندانہ اور بین الاقوامی سوچ کی طرف گامزن کرکے عوامی استدلال کے عمل کو مضبوط ومستحکم بنایاجاسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں