محراب پندرنی قتل کیس: کوئٹہ، اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں مظاہرے

240

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ اور اسلام آباد پریس کلبوں کے سامنے سانحہ بواٹہ فورٹ منرو اور بااثر شخص اور ٹرانسپورٹ مالکان کے ہاتھوں شدید اذیت اور ٹارچر سے جانبحق ہونے والے بچے محراب پندرانی کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں خواتین اور نوجوانوں نے شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے میں شرکاء نے رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی پر ہونے والے مظالم کے خلاف نعرے بازی کی اور لوگوں کو اس جدوجہد میں شریک ہونے کیلئے اپیل کی۔

مظاہرے میں لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں محراب پندرانی اور دیگر کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا، احتجاجی مظاہرہ سے رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے چپے چپے میں ظلم اور جبر کا راج چل رہا ہے اس ملک میں سرمایہ دار اور بااثر شخص خود کو طاقتوار اور قانون کے پہنچ سے دور سمجھتے ہیں جو بنا کسی خوف و خطر ہر طرح کے جبر اور ظلم کر رہے ہیں۔ محراب پندرانی کا واقعہ ہمارے سماج میں غیرانسانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کوئی بھی انسان جانور کے ساتھ اس طرح ظلم نہیں کرتا جس طرح اس ظالم لوگوں نے محراب پندرانی کے ساتھ کیا ہے۔

بلوچستان میں قانون وجود ہی نہیں رکھتا انہوں نے کہا کہ آج جہاں ہم ایک مظاہرہ کر رہے ہیں یہاں پر سب کی تصویریں بن رہی ہیں سب کے ریکارڈ لیے جا رہے ہیں ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے مگر محراب کے واقعے کو پندرہ دن گزرنے کے باوجود اب تک مجرم کو گرفتار نہیں کیا گیا جو اس بات کا غماز ہے کہ ملزمان کو پیٹ پیچھے مدد کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں ایسے طاقت ور لوگوں کو ہمیشہ سپورٹ حاصل رہا ہے یہ چاہے کتنے ہی بڑے کرائمز میں کیوں نا ملوث ہوں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ حکمرانوں کو ان سے پیسہ ملتا ہے جو انہیں کسی بھی طرح نقصان پہنچانا نہیں چاہتے-

رہنماؤں نے فورٹ منرو میں معصوم رابعہ بلوچ کے گھر میں گھس کر جس طرح جرائم پیشہ افراد نے گھر کے تین افراد کو قتل کرکے باآسانی فرار ہوگئے جبکہ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ گھر کے بلکل قریب ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ایف سی چیک پوسٹ موجود ہے مگر اس تمام صورتحال میں انہوں نے کسی بھی طرح کا کوئی ردعمل نہیں دیا، بلوچ آج پاکستان کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں ہیں اور تسلسل کے ساتھ ظلم اور جبر کا سامنا کر رہے ہیں اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو آگے جاکر یہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ محراب پندرانی پر تشدد ایک غیر انسانی عمل ہے جس کے فوری بعد حکومت کو حرکت میں آکر انہیں گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے پولیس اوردیگر حکام نے مسلسل کوشش کی کہ محراب پندرانی کا واقعہ دب جائیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خون میں انتظامیہ بھی ملوث ہے۔ بلوچستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، حیات کا واقعہ ہو برمش کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کا جبر ہو یا محراب پندرانی اور رابعہ بلوچ کے ساتھ پیش آنے والا غیر انسانی عمل یہ تمام چیزیں یہ واضع کر دیتی ہیں کہ بلوچ اس ملک میں کتنے غیر محفوظ ہیں۔

اختتام میں مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ محراب پندرانی اور رابعہ بلوچ کے گھر میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر فوری طور پر نوٹس لیکر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے عملی طور پر
کوششیں شروع کریں۔

جبکہ دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے بھی کمسن رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی کیلئے احتجاج کیا گیا جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کرکے رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا۔

رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسے اکثر و بیشتر واقعات میڈیا تک پہنچ نہیں پاتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کے ساتھ پاکستان کی میڈیا بھی بلوچستان میں ہونے والے ان سنگین ناانصافیوں پر بھی مکمل خاموش ہے۔ انہوں نے پاکستانی حکام سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ان سنگین واقعات پر ایکشن لیں ورنہ ایسے واقعات کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔

دریں اثناء پندارنی قومی اتحاد زہری کی جانب سے بھی کمسن بچے کی قتل کے خلاف زہری میں ایک احتجاجی مظاہرے کیا گیا –

مظاہرہ کے شرکاء نے قتل میں ملوث بااثر افراد کو قانون کی گرفت میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا –

یاد رہے کچھ روز قبل ایک 13 سالہ بچے کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ جس کے الزام میں آج کوئٹہ پولیس نے مبینہ ملزم دولت لہڑی کو گرفتار کرنے کے لے چھاپہ مارا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر سریاب کی نگرانی میں سدابہار کو سیل کیا کر دیا گیا ہے۔

کمسن بچے محراب کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق انہیں لوہے کے سریے اور ڈنڈوں سے تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی –

رپورٹ کے مطابق محراب پندرانی کے تمام جسم پر تشدد کیا گیا سینے کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں-

ڈاکٹر نصراللہ مینگل میڈیکل افیسر نصیر آباد نے کہا کہ اس واقعے میں ایک اور زخمی بچے کے بیان کے مطابق ان دونوں کو کراچی میں مارا پیٹا گیا پھر کراچی سے کوئٹہ لاتے ہوئے راستے میں ان پہ تشدد کیا جاتا رہا۔

کوئٹہ پہنچ کر دونوں بچوں کو سرہوں لوہے کے پائپوں سے تشدد کیا گیا بجلی کے کرنٹ دیئے گئے جس سے محراب پندرانی کی موت واقع ہوئی۔

دوسری جانب سدا بہار ٹرمینل کو بند کرنے کیخلاف حاجی حکمت لہڑی اور دیگر ٹرانسپورٹرز نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محراب پندرانی کے قتل میں ہمارا کوئی تعلق نہیں-

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے ہمیں معلوم نہیں ایف آئی آر میں کس کا نام ہے-

انہوں نے کہا کہ کس قانون کے تحت ٹرمینل کو بند کیا گیا، ٹرانسپورٹرز کیساتھ ایک ایس پی ناجائز کررہا ہے-

انکا کہنا تھا کہ بلوچستان بھر میں پہیہ جام ہڑتال کرینگے-