بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے سی ٹی ڈی کے ہاتھوں لاپتہ افراد کے جعلی کارروائیوں میں قتل ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلوچ نشل کشی کیلئے ریاست کی نئی پالیسی قرار دے دیا-
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے جہاں ریاست اور اس کے ادارے بنا کسی تحقیق اور جواب طلبی کے ہر طرح کے سنگین جرائم میں شریک ہیں، بلوچ نسل کشی کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ریاست نے ایک نئی پالیسی کا آغاز کر دیا ہے جس کے تحت لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بعد انہیں فیک انکاؤنٹرز میں نشانہ بنایا جارہا ہے، ریاستی فورسز پہلے لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتے تھے جبکہ حالیہ وقت میں ریاستی فورسز نے بلوچ قتل عام کا طریقہ تبدیل کرکے ان کو سی ٹی ڈی کے نام پر جعلی مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے۔ یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اگر اس کا روک تھام نہیں کیا گیا تو سینکڑوں خاندانوں کے افراد کو اسی طرح جعلی مقابلوں میں مارنے کا ڈرامہ رچایا جائے گا۔ بلوچستان سے آئے دن سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ سیاسی کارکنان اور کاروباری حضرات کو اغوہ کیا جاتا ہے۔ بلوچ نسل کشی کی نہی ریاستی پالیسی نے بلوچستان بھر میں ایک خوف کی فضا کو جنم دیا ہے-
ترجمان نے کہا کہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مار کر ریاست اپنی جرائم کو چھپانے کی مزموم کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کے واقعات سے لاپتہ افراد کے خاندانوں میں مزید تشویش پھیل چکی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ ان کے تمام لاپتہ افراد کو ماضی کی طرح ماروائے عدالت قتل کیا جائے گا، بلوچ نسل کشی کی یہ نئی پالیسی انتہائی سفاک ہے، ہر ایک واقعے میں سات سات لاپتہ افراد کو اس طرح قتل کرنا جنگی جرائم کی سنگین صورت ہے مگر بدقسمتی سے ایسے واقعات تھمنے کے نام نہیں لے رہے۔ گزشتہ چند دنوں میں سی ٹی ڈی نے بلوچستان بھر میں 20 سے زائد افراد کو جعلی مقابلوں میں نشانہ بناکر قتل کیا ہے۔ پاکستان کے اندر قانون اور انصاف کے تمام ادارے یرغمال ہو چکے ہیں جبکہ اب وہ ریاست کے جرائم کو چھپانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
میڈیا میں سنگین سنسرشپ کی وجہ سے ان خاندان کے افراد کے بیان کو بھی جگہ نہیں دی جا رہی ہے جو سی ٹی ڈی کے فیک انکاؤنٹرز کا چہرہ بےنقاب کرنا چاہتے ہیں۔
ترجمان نے سی ٹی ڈی کے حالیہ واقعات اور بلوچ نسل کشی میں تیزی اور تبدیلی پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچ نشل کشی کی اس نئی پالیسی کو سمجھ کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں ورنہ ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں ریاستی ادارے ایک بہت بڑے انسانی المیہ کو جنم دینگے۔