سی ٹی ڈی کے جعلی مقابلے میں جان بحق ہونے والے دو کی شناخت لاپتہ افراد سے ہوگئی ہے جو کئی سالوں سے پاکستانی فورسز کے عقوبت خانوں میں قید تھے۔
26 اگست کو سی ٹی ڈی نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے بلوچستان ضلع لورالائی میں ایک مقابلے میں سات افراد کو مار دیا ہے سی ٹی ڈی نے دعوی کیا تھا ان لوگوں کا تعلق بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ سے تھا۔
اس مقابلے میں مارے جانے والوں میں دو کی شناخت لاپتہ افراد سے ہوئی ہے جو کئی سالوں سے پاکستانی فورسز کے زیر حراست جبری گمشدگی کا شکار تھے۔
مارے جانے والوں میں سے دو کی شناخت عبدالغنی اور صدام کے ناموں سے ہوئی ہے۔
مذکورہ دونوں افراد کے لواحقین نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں لیویز حکام نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تصاویر بھیج کر اطلاع دی کہ مقتولوں میں دونوں شامل ہیں۔ دونوں مقتولوں کے اہل خانہ نے لاشوں کی شناخت بھی کی ہے۔
خیال رہے کہ غنی بلوچ کو 20 اکتوبر 2017 کو پسنی زیرو پوائنٹ سے پاکستانی فورسز نے اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کیا جب وہ اپنے بیمار والدہ علاج کے لئے کراچی لے جاکر واپس آرہے تھے۔
قتل ہونے والے صدام کو 24 اپریل 2018 کو پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کراچی کے علاقے ملیر سے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا۔
حالیہ کچھ وقتوں سے سی ٹی ڈی متواتر مقابلوں کا دعویٰ کرتا آرہا ہے جو بعدازاں جعلی ثابت ہوتے ہیں جہاں مقابلے کے نام پر پہلے سے زیرحراست لوگوں کو قتل کرکے انہیں مقابلے کا نام دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن نوید احمد بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہی اٹھاؤ اور مارو پھینک دو والی پالیسی کا تسلسل ہے جبکہ اس کا طریقہ کار نیا ہے، پہلے لوگوں کو مار کر لاشیں رات کی تاریکی میں پھینک دیا جاتا تھا اب انہیں مار کر مقابلے کا نام دیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کیا جارہا ہے – ماما قدیر بلوچ
یاد رہے اس سے قبل بھی سی ٹی ڈی کی جانب سے اس طرح کے دعوے کئے گئے ہیں جو بعدازاں جعلی ثابت ہوئے ہیں اور پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کیا ہے۔
انہوں نے بتایا حالیہ کچھ وقتوں سے جتنے بھی لوگ سی ٹی ڈی نے مارے ہیں وہ سب وہی ہیں جن کے لواحقین آگے نہیں آتے ہیں ان کی بازیابی کے آواز نہیں اٹھاتے ہیں اور وہ اس ڈر سے خاموش ہوتے ہیں کہ ان کے آواز اٹھانے سے ان کے پیاروں کو کہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ پائے اور اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فورسز انہیں مار دیتا ہے۔
انہوں نے اپیل کی کہ جتنے بھی لوگ لاپتہ ہیں ان کے اہلخانہ سامنے آئیں اور ان کے لئے آواز اٹھائیں اور اس طرح خاموشی سے ان کے پیاروں کی جان کو مزید خطرہ لائق ہے۔