ریحان تم زندہ ہو ۔عائشہ اسلم بلوچ

972

ریحان تم زندہ ہو

تحریر:عائشہ اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تین سال پہلے آج ہی کے دن ریحان جان ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوکر تاریخ میں اس مقام کا اپنے لیئے چناو کرگئے تھے، جو محض غیرمعمولی انسانوں کیلئے مختص ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ آج ریحانوں کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے جب ریحان اپنے خوبصورت مسکراہٹ کے موتی چارسو بکھیرا کرتا تھا۔

ریحان تم جیسا چاہتے تھے ویسے ہی ہورہا ہے، تم نے جس پختہ عمارت کا خواب لیکر اس کی بنیادوں کو اپنے خون سے سینچا تھا، آج اس کی اونچی ناقابل تسخیر فصیلیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ تمہیں بھی یہ دیکھ کر کتنا سکون ملتا ہوگا کہ تمھارے ہم قدم دوست آج تمہاری طرح بے خوف موت کا خود انتخاب کرتے ہیں، وہ کتنی دلیری سے اپنے مشن تک پہنچتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔

ریحان تم کتنے خوش ہوگے یہ دیکھ کر کہ تمہارا لہو قندیل بن کر آزادی کے مسافروں کو تاریک راہوں میں رستہ دکھا رہا ہے۔ ریحان تم کتنے خوش ہوتے ہوگے یہ دیکھ کر تمھارے قوم کے نوجوان تمھارے ہم قدم دوست کس طرح دشمن کے مورچوں میں گھس گھس کر ان کے پرخچے اڑا کر بیرک آزادی لہراتے ہیں۔ وہ کس طرح بے خوف دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اس کو شکست دیتے ہیں ، یہی تو تم چاہتے تھے اور دیکھو تمہاری شکل میں کتنے ریحان قربان ہوچکے ہیں کتنے قربان ہونے کو تیار ہیں اور کتنے ریحان مادر وطن کی دفاع میں سربکفن تیار بیٹھے ہیں۔

صبر ،حوصلہ، ہمت، جذبہ ،سوچ، فکر، مہر ومحبت کا اصل نام ہی ریحان ہے۔ جب تک اس دھرتی پر مہر ہوگا قربانی ہوگی ریحان زندہ رہے گا اور یہ دھرتی نا ابد سے بے مہر رہا ہے اور نا ازل تک بے مہر رہے گی۔

ان تین سالوں میں، ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جو تم یاد نا آئے ہمیشہ ایسا لگتا ہے جیسے تمہیں بچھڑے ابھی کچھ وقت ہی ہوا ہے ریحان تم ایک پھول ہو جو ہمیشہ مہکتے ہو۔ میرا کبھی پریشان ہونا اور تمھارا میرے خواب میں آکر مجھے حوصلہ دینا ہمیشہ یہ احساس دلاتا ہے کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ ہو، تم زندہ ہو، امر ہو ہمیشہ کی طرح آج بھی ہماری رہنمائی کر رہے ہو۔ میں ہمیشہ یہی دعا کرتی ہوں کا خدا مجھے بھی تمھارے جیسا حوصلہ دے ، ہمت دے تاکہ میں ہر حالت کا سامنا کر سکوں۔ مجھ میں بھی وہی برداشت ہو جو تم رکھتے تھے۔

یہ یادیں بھی کتنی تکلیف دیتی ہیں جب بھی تمہاری یادیں تازہ ہوتی ہیں تمھارا وہ مذاق کرنا، مجھے تنگ کرنا جب بھی یاد آتا ہے تو آنکھیں نم اور چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ تمہیں پتہ ہے ہر گھر میں ہر محفل میں تمہارا نام لیا جاتا ہے تمہاری مثل دی جاتی ہے، آج ہر جملے میں ہر لفظ میں تم موجود ہو۔

تم کہتے تھے نا کا ایسی زندگی نہیں چاہتا  جو صرف میری زات تک محدود ہو۔ تم نے ایسی زندگی کا انتخاب شروع سے ہی نہیں کیا، تم تو ہمیشہ سے قوم کے تھے اور آخر دم تک قوم کے رہے، تم اپنے سارے فرائض جانتے تھے اور انہیں بخوبی پورا بھی کیا آج صرف ہمیں نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم کو تم پر فخر ہے، ریحان تم نے آج کے دن موت کو نہیں بلکہ زندگی کو گلے لگایا تھا، تم آج زندہ ہو اور تم تب بھی زندہ ہوگے جب اس وطن کے آزاد فضاؤں میں پہلا پھول کھلے گا، جس سے تمہاری اٹھی خوشبو چارسو پھیل جائیگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں