رنگ ہوکر اُڑ گیا، جو خوں کے دامن میں نہیں ۔محمد خان داؤد

162

رنگ ہوکر اُڑ گیا، جو خوں کے دامن میں نہیں

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

تربت میں اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ پہاڑ بھی ویسے، پہاڑوں کے باسی بھی ویسے۔ ویسے ہی سورج طلوع ہوتا ہے اور ویسے ہی سورج غروب ہو جاتا ہے۔ پر ایک بات نہیں دیکھنے میں آئی ہے کہ اب سورج پہلے سے زیادہ سرخ ہوتا ہے،غم میں یا غصے میں یہ نہیں معلوم۔سورج تربت کے پہاڑوں کی اوٹ میں غروب ہوجاتا ہے پھر بھی آسماں پر سرخی سی رہتی ہے۔ وہی آسماں، وہی آسماں پر پانیوں سے بھرے بادل۔ جب وہ اندھی گولیوں کا شکار ہوا تھا جب بھی تربت کے آسماں پر پانیوں سے بھرے بادل تیر رہے تھے،پھر جیسے مقتول کی ماں روئی تھی۔ ویسے ہی تربت کی زمیں پر وہ پانیوں سے بھرے بادل روئے تھے۔ویسے ہی لوگ،ویسے ہی ان پہاڑوں کے درمیاں راستے،ویسے ہی کچے گھروں میں جلتے دئیے۔ ویسے ہی ماؤں کا انتظار اور شہروں میں پڑھنے والے بچوں کی چھٹیوں میں گھروں کو آمد، ویسے ہی آسماں پر چمکتا چاند، پر اس کے قتل کے بعد چاند تربت کے آسماں پر رات گئے نکلتا ہے اور رات کے پچھلے پہر ہی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے، جب وہ حیات تھا تو تربت کا آسماں تاروں سے بھرا رہتا تھا پر اب تارے آسماں پر کم اور اس کی قبر پر زیا دہ ہیں۔

وہی پہاڑوں کے بیچ نخلستان۔ان نخلستانوں میں بہتے پانی۔ان پانیوں کے بیچ و بیچ کجھی کے بلند و بالا ننگے درخت۔ جب اس پر بھونکتی بندوقیں بھونکی تھیں جب وہ بھی ان ننگی کجھیوں میں بیٹھ کر شہر میں بسنے والی محبت کو یاد کر رہا تھا، پھر بندوق بھونکی اور ایک دو نہیں یکے بعد آٹھ گولیاں چلیں جس سے آٹھ وجود گھائل ہوکر تربت کی سنگ لاخ زمیں پر گر پڑے۔

ایک گولی اسے زندہ سے مقتول کر گئی۔ایک گولی باپ کو کئی سوال دے گئی۔ ایک گولی ماں کی نیند کو قتل کر گئی، ایک گولی بلوچستان کے ماتھے پر سوالیہ نشان؟ چھوڑ گئی۔ایک گولی تربت کے پہاڑوں میں شور کر گئی۔ایک گولی تربت کے نخلستانوں کو خون آشام کر گئی۔اور ایک گولی اس محبوبہ کو تربت سے بہت دور شہر میں جا کر لگی جس کے گالوں پر حیات کا محبت بھرا بوسہ کھیل رہا تھا،گولی کہ بعد محبوبہ بھی گھائل ہے اور ان دونوں کے درمیاں محبت بھرا بوسہ بھی۔

جب حیات کو بھونکتی بندوقوں نے گھائل کیا تھا وہ جب بھی تربت کے میدانی نخلستانوں میں ننگی کجھیوں سے کجھیاں چُن رہا تھا۔کجھیاں اب بھی ہیں۔کجھیوں کا ننگا پن اب بھی ہیں۔ان کجھیوں میں پھل اب بھی ہے پر وہ ہاتھ نہیں جو آگے بڑھ کر ان کجھیوں سے کجھیاں چنا کرتا تھا۔حیات کے مقتول بن جانے کے بعد جیسے بلوچستان کے سورج کا غم ہے کہ وہ جا تے ہوئے ڈوبتے ہوئے بھی آسماں کو سرخی مائل کر جاتا ہے،جیسے چاند دیر سے طلوع ہوتا ہے اور جلدی گم ہوجاتا ہے،جیسے تربت کا آسماں تاروں سے خالی خالی ہوگیا ہے ویسے ہی تربت کے میدانی نخلستان کی کجھیاں حیات کے قتل کے بعد اب اپنی پیلاہٹ ختم کر چکی ہیں اب وہ غم میں سرخ ہیں!
کہنے کو تربت نہیں بدلا۔پر کس کی آنکھ سے؟
میری آنکھ سے
ان کی آنکھ سے جو تربت میں بستے میں
پر کسی نے اس ماں سے پوچھا جو حیات کے بعد یتیم ہوئی اور خدا کو تلاشتی رہی کہ حیات کے بعد تربت بدلا یا نہیں؟
حیات کے بعد تربت اتنا بدل گیا جتنا بھمبور پنھوں کے بعد سسئی کے لیے بدل گیا تھا
”پنھل کھان پوءَ ڈجے باھِ بھمبور کھے!“
”پنھل کے بعد بھمبور کو آگ لگا دو!“
حیات کے بعد اس ماں کے لیے تربت ایسے ہی بدل گیا جیسے ماروی کے بعد تھر بدل گیا تھا
اس ماں کے لیے تربت بدل گیا،نخلستان بدل گیا۔بلوچستان بدل گیا،رات و دن بدل گئے شام سحر بدل گئے۔تربت کا دل بدل گیا اور اس ماں کا دل بدل گیا تربت اور ماں کے سینے پر اک قبر کا بوجھ آگیا جس بوجھ کو نہ تو کوئی دیکھ رہا ہے اور نہ محسوس کر رہا ہے،کیوں کہ ماری تو وہ ماں گئی جس کے سامنے اس کا جواں سالہ بیٹا مارا گیا اور مارا تو تربت گیا جس کی زمیں پر وہ خون گرا اور تربت کی زمیں تڑپ اُٹھی ہم نے آپ نے کیا محسوس کیا؟
بس کچھ موم بتیاں لیے پریس کلبوں کے دروں پر گئے،حیات کی تصویر پرکچھ پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں
اپنے موبائل فون سے سیلفیاں لیں انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا اور صبح سے شام تک یہ دیکھتے رہے کہ کس نے لائیک کیا؟کیا کمنٹس کیا اور ان تصویروں کو کیسے آگے بڑھایا
اور ہم نے حیات کے قتل کو کیسے محسوس کیا؟
پر وہ ماں جس کے سامنے نہ تو تربت کی زمیں پر موجود قبر خشک ہو تی ہے
اور نہ دل پر بنی قبر خشک ہو تی ہے
ٹھیک ہے ہم مانتے ہیں ماں اس قبر پر کبھی کبھی ہی جا تی ہو گی جو پتھروں کے درمیاں بنائی گئی جس قبر میں حیات کو اتارا گیا اور پھر ایک پتھر کی بھا ری سِل رکھ دی گئی
پر اس قبر کا کیا جو ماں کے سینے پر بنی ہوئی ہے جو ہر روز آنسوؤں سے تر رہتی ہے،جس قبر میں بس حیات دفن نہیں اس قبر میں حیات کی حیات دفن ہے
بچپنے سے لیکر لڑکپن تک
لڑکپن سے لیکر جوانی تک
اس قبر میں بس حیات دفن نہیں
اس کی باتیں
ہنسی
شرارت
ناراضگی
محبت
غصہ
کپڑے
اور کتابیں دفن ہیں
اس قبر پر کون سی موم بتیاں جلائی جائیں،کون سے پھول نچھاور کیے جائیں اور کون سی سیلفیاں لی جائیں؟
وہ قبر ہے۔اور دردوں سے بھری شام ہے نہ تمام دن ہیں اور وہ ماں ہے
میں آپ تو دردوں سے بہت دور ہیں
ہم اس بمبھور کو کیسے جلا سکتے ہیں جس بمبھور میں ہمارا پنھوں ہم سے بچھڑا ہی نہیں؟
”ضعف سے اے،گرِیہ!کچھ باقی مرے تن میں ہیں
رنگ ہوکر اُڑ گیا،جو خوں کہ دامن میں نہیں!“
کہنے کو اور ہماری ذلتوں بھری آنکھوں سے دیکھنے میں تو سب کچھ ویسا ہی ہے
پر ویسا کچھ بھی نہیں
پر ویسا کچھ بھی نہیں
پر ویسا کچھ بھی نہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں