جب دھرتی کروٹ لے گی! ۔محمد خان داؤد

170

جب دھرتی کروٹ لے گی!

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ وطن سے محبت نہیں کرتے، وہ اپنی ذات سے محبت کرتے ہیں۔اس لیے وہ اپنے بھاری جسموں کو چھوٹی سے بائیک پر بندوق بردار جھتوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وطن ان کے دم سے ہے۔جب کہ یہ قول قرار آج کا نہیں یہ قول قرار اتنا ہی پرانا ہے جتنی دیس کے مٹی کہ
”جو دیس کی مٹی سے نہیں جُڑتا وہ کھک پن ہو جاتا ہے!“
وہ بھی کھک پن ہو جائیں گے۔بھا ری بائیکس ہی کیا ان کے وجودوں سے تو یہ دھرتی ایسے کھسک جائیگی،جیسے دھرتی پر موجود پہاڑوں پر لینڈسلائینڈگ ہو تی ہے اور بھاری بھاری پتھر بھی پہاڑوں کی چوٹیوں سے کھسک جا تے ہیں حالاں کہ ان بھاری پتھروں کی میکھیں تو دھرتی میں گڑی ہوتی ہیں پر جب دھرتی اور پہاڑوں کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھاری پتھر سوائے بار کہ کچھ نہیں کیوں نہ ان بھاری پتھروں کی جگہ پر کوئی پھول کھلے تو وہ دھرتی اور بلند و بالا پہاڑ ان پتھروں کے ساتھ وہ کرتے ہیں جن کا شاید پتھروں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو،پھر نہ پتھر رہتے ہیں اور نہ ہی ان میکھیں!

یہ جو دھرتی سے محبت نہیں کرتے،بھاری وجودوں کے ساتھ چھوٹی سے بائیکس پر بندوق برداروں کے جھتے کے درمیاں دیس کی سڑکوں پر ڈرامہ کرتے نظر آتے ہیں کیا یہ بھی رہیں گے؟
بس دھرتی کی ایک کروٹ کی بات ہے
بس بلند و بالا پہاڑوں کی ایک لینڈ سلائینڈگ کی بات ہے
یہ وہ دھرتی ہے جو دماغ سے نہیں سوچتی دل سے سوچتی ہے
یہ وہ لینڈ سلائینڈگ ہے جو پہاڑوں میں نہیں آنی،دل میں آنی ہے
جب دھرتی کے ننگے پیر،اداس آنکھوں،اور تڑپتے دلوں میں لینڈ سلائینڈگ ہوگی تو وہ نہیں رہیں گے جو میری دھرتی کے نرم دل جیسی شاہراؤں پر بھاری بائیکس چلاتے ہیں۔اور بندوق بردار جھتا ان کے پیچھے پیچھے ہوتا ہے،وہ اپنے بد بو دار منھ سے سگار کا نمکین دھونہ تو چھوڑ سکتے ہیں۔وہ چی گویرہ کی نکل تو کر سکتے ہیں پر دھرتی جانتی ہے کہ یہ دھرتی کے بیٹے نہیں کرائے کے ٹٹو اور لال بازاروں کے دلال ہیں!
جب دھرتی کروٹ لی گی تو کسی وزیر کے بیٹے کے پروٹوکول میں سیکڑوں گاڑیاں نہیں ہو نگی۔

یہ دھرتی کے بیٹے نہیں یہ تو وئشیا ہیں جنہوں نے دھرتی کی دلالی کی ہے!
جس کے لیے آریسر نے کہا تھا کہ
”وطن سے محبت نہ کرنے والے انسان کے دل سے آزادی کا احساس ایسے ختم ہو جاتا ہے جیسے وئشیا کے ذہن سے حیا کا تصور نکل جاتا ہے!“
یہ تو دھرتی کی وئشیائیں ہیں!
یہ دھرتی کے بیٹے نہیں ہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو دھرتی پر مارے جا رے ہیں،وارے جا رہے ہیں۔دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے پہلے ذہنوں میں لینڈ سلائینڈگ ہوئی پھر دلوں میں۔دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے دھرتی پر مارنے جانے پر چاند کئی دنوں اور راتوں کا سوگ کرتا ہے،دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے جن کی قبروں پر کوئی کتبہ نہیں کوئی نام کندہ نہیں بس ان کی قبروں کے سرہانے سرخ ھول کھل آتے ہیں۔دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جنہیں ماؤں نے جنا اور پہاڑوں نے قبول کیا۔دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو مٹی کو چومتی ہیں،مٹی کو سلام کرتے ہیں اور مٹی کو اپنے لہو سے سرخ سرخ کرتے ہیں،دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کی دلوں میں دھرتی کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ لہراتا رہتا ہے۔دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے دل کبھی شکست خودرہ نہیں ہوتا،دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کا کوئی نام نہیں،دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کا مشترکہ نام ہے آزادی۔

دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے بیٹوں کو کسی گاڑی کسی بندوق بردار کا کوئی پروٹوکول نہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو گم نام تھے،گم نام ہیں اور گم نام ہی رہیں گے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جنہیں دھرتی جانتی ہے جنہیں دھرتی اپنے اندر دفن کر دیتی ہے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے سینوں میں آزادی رہتی ہے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو کسی حسین جسم کے ہیراک نہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو آگے بڑھ کر کسی محبوبہ کا بوسہ نہیں لیتے دھرتی آپ آگے بڑھ کر ان کے میلے گالوں کو چوم لیتی ہے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو پہاڑوں کو ایسے جانتے ہیں جیسے دنیا کے لوگ اپنے رشتوں کو جانتے ہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے پہاڑ بڑے بھائی ہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو بے حیا نہیں بے شرم نہیں بے غیرت نہیں جو دلال نہیں جو لال بازاروں کے دروں کے چوکیدار نہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے مارے جانے کی خبر پر چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے
اور جن کی قبروں کو چاندنی سے بھر دیتا ہے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو بارشوں کے درمیاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر ایسے روتے ہیں جیسے بھیگتی بارشوں میں یسوع رویا کرتا تھا۔
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے ناموں کے آگے سردار،بھوتار،رئیس،کا لاحقہ نہیں لگایا جاتا
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو ماؤں نے جنیں اور پہاڑوں نے اپنی بہانوں میں لے لیے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کی کوئی محبوبہ نہیں ان کی ایک ہی محبوبہ ہے
”آزادی!!!!“
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جن کے لب سرخ اور گال گلابی ہیں کیوں کہ روز دھرتی ا ن کے گال چومتی ہے
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو جان گئے ہیں کہ
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!!!“
وہ با حیا ہیں،وہ غیرت مند ہیں
دھرتی کے بیٹے وہ ہیں جو چالاک نہیں،دھرتی کے بیٹے تو بہت معصوم ہیں اوس کے میٹھے میٹھے گیلے گیلے قطروں کی ماند
وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر روتے ہیں
اس لیے نہیں کہ خدا ملے
اس لیے نہیں کہ محبوبہ کا لمس ملے
اس لیے کہ آزادی ملے
اور جو آزادی کے لیے روتا ہے
تو دھرتی آگے بڑھ کر اس کے گال چوم لیتی ہے
ان کے بھی جو آزادی کی چاہ میں مارے گئے دیس پر وارے گئے
اور ان کے بھی جو پہاڑوں کی چوٹیوں اور دلوں میں یاد بن کر رہ گئے
محبوب دھرتی کا وہ گیت ہے جس گیت کا کوئی دوسرا گیت ہی نہیں محسوس ہوتا ہے قدرت نے محبوب گیت تخلیق کر کے وہ بانسری ہی توڑ دی جس سے محبوب گیت کی پیاری سی دھن بجے
دھرتی کے بیٹے بھی محبوب کی بانسری کے رہ جانے والے گیت ہیں
معصوم سے
پیارے سے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں