تعلیم یافتہ مگر قومی فکر سے عاری
تحریر:ماہ گنج بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہمارے ہاں تعلیمی نظام کس قدر درہم برہم کا شکار ہے شاید کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہمیں موجودہ وقت میں بھی ہزاروں کی تعداد میں تعلیمی ادارے زیرِتعمیر چاہیں، مگر وہ وجود ہی نہیں رکھتے اور شاید ہم ان کے تعمیر کے لئے ترستے ہی رہینگے کیونکہ ہم بہت ہی غیرمخلص اور غیرذمہ دار لوگوں کے معاشروں کا حصہ ہیں۔ اداروں کی تعمیر کے حوالے سے سوچنا تو دور جو ادارے وجود رکھ رہے ہیں اُن سے ہمیں کتنا استفادہ ہورہا ہے؟ دیہی علاقوں میں پہلی بات یہ کہ اسکول ہی نہیں ہیں اور اگر ایک ادھ دل خوش کرنے کے لئے ہیں بھی تو انسانوں کی جگہ کبھی بھیڑ بکریاں وہاں آرام فرما رہے ہوتے ہیں تو کبھی کچھ ویران پڑے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ طلباء ہیں تو اساتذہ نہیں ہیں ، کہیں اساتذہ ہیں مگر طلباء نہیں۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر خوش قسمتی سے کہیں کوئی اسکول ہے بھی تو قریب آبادی کے متعدد لوگ دو قدم بچوں کو اسکول روانہ کرنے سے انکاری رہتے ہیں۔
آہ ! ہم اداروں کے نہ ہونے پر رونا روئیں یا پھر انکے ہوتے ہوئے والدین کے ممنوع کردہ تصفیوں پر آنسو بہائیں ۔ جبکہ والدین کے اِس غیرعقلیت پر مبنی تصفیوں کا زمہ دار کیا صرف وہ ہی ہیں، یا پھر اُن کے ساتھ ساتھ معاشرے کے علمبردار ، خواندہ اور واعظ بھی بڑے حد تک اِن فیصلوں کا زمہ دار ہیں ؟
شہر میں تعلیمی اداروں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہماری اکثریت سرکاری اسکولوں میں پڑھانا چاہتی ہے ، مقصد قومی خدمت کم ایک بڑے تنخواہ کا وصول زیادہ ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ نوکری سرکاری ہے تو زندگی گزارنے کا ایک سہارا بھی۔ گِنے چنے لوگ ہی اپنے سرکاری پیشہ پر مخلص دکھینگے۔ پرائیویٹ ادارے تو محض پیسے کے کاروبار کا ایک اڈہ ہیں۔ جہاں پریشان کردینے والے فرسودہ اصول زیادہ جبکہ علم و فنون کا سیکھ دینے والے اصول محدود ملیں گے۔ متعدد اسکولز ہونے کے باوجود والدین ایک اچھے اسکول کی تلاش میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ادارے نہیں ہیں ، بلکہ یہ کہ انکا تعلیمی نظام ہی وہ نہیں جو ان کے بچوں کو مستقبل کے لئے تیار کرسکے۔ پیسے کا نشہ قومی فکر پر حاوی ہونے لگا ہے۔
تاہم مختلف دشواریوں ، مرحلوں ، پریشانیوں اور خواریوں کے بعد بیشتر طلباء ایک معیاری تعلیم کے حصول میں مفلح ہوتے ہیں۔جنہیں اپنے سماج میں موجود بہت سے بحران دِکھ جاتے ہیں، زمینی حقائق سے جو روشناس ہوجاتے ہیں ، اپنے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں اور زیادتیوں کا جنہیں ادراک ہوجاتا ہے ، یہی وہ چند لوگ ہیں جو اپنا زاویہ نگاہ دیگر معاشرے کو بھی دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں تاکہ باقی ماندہ لوگ بھی اُسی طرز سے صداقت کی چھان بین کریں اُس پر تنقیدی نگاہ ڈالیں۔
فی الحال نوآبادیاتی زندگی کے تمام پہلوؤں سے ہم گھرے ہوئے ہیں ، فقط قوم کو تجزیہ و غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک نوآبادی کسی ملک کے زیردست اپنے خلاف ملکی یا عالمی سطح پر بننے والے منصوبوں سے کیسے ہمکنار ہوسکتا ہے ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ دنیا میں نوآبادیات کی کوئی زندگی نہیں ہوتی چونکہ انہیں طاقت کے زور پر اپنا مطیع ، رعیت اور باجگزار بنایا جاتا ہے، ان کی آزادی سلب کرکے پابندیاں مسلط کی جاتیں ہیں اور پابندیوں کے ماتحت زندگی جینے لائق باقی نہیں رہتی۔
تعلیم نوآبادیات کے لئے محض ایک خواب کی مانند ہوتی ہے جسے پورا کرنے کی کاوشیں تو ہوتی رہتی ہیں مگر اس کے برعکس جابر بھی اپنا پورا زور لگا دیتا ہے کہ اسے پوری طرح سے مٹا سکے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اغیار نوآبادی سے تعلیم کیوں چھیننا چاہتے ہیں ؟ یقیناً وہ اُس کی اہمیت سے آگاہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ تعلیم کا فروغ انکے خواب زیادہ دیر تک پورا ہونے نہیں دیگا، جس زمیں کو انہوں نے اپنے معیشت و تجارت کو بڑھاوا دینے کے لئے بزور شمشیر ضبط کیا ہوا ہے ، تعلیم کی فروغ انکے قدم وہاں دیر تک ٹِکنے نہیں دیگی ۔ نوآبادی کو تعلیم دینے سے مراد اُنہیں وہ آنکھیں دینا ہے جو اُنکے خلاف اٹھائے گئے اقدامات و منفی حکمتِ عملیوں کو پرکھ سکیں جان سکیں ، اُنہیں وہ زبان دینا ہے جو اپنے(اغیار) خلاف انہیں بولنے کا موقع دےسکیں ، انکے خلاف آواذ بلند کرسکیں، وہ ہاتھ دینے ہیں جو اغیار کی جانب سے خود پر ہونے والے تمام مظالم اور زیادتیوں کو قلمبند کرسکیں، رعایا میں تلخ حقائق کی پرچار کرسکیں، تاریخ رقم کرسکیں، انہیں اپنے خلاف انگلی اٹھانے کی جرات دےسکیں یا پھر بندوق ، وہ پیر دینے ہیں جو اپنے خلاف تحریکیں ، انجمنیں تشکیل دےکر چار قدم اٹھا سکیں ۔ ایسے میں اغیار کبھی چاہےگا کہ اپنے زیردست قوم کو تعلیم جیسی نعمت سے سیر ہونے دےسکے ؟ یقیناً وہ ایسا بالکل بھی نہیں چاہےگا اور یہی وجہ ہےکہ جہاں کہیں قبضہ گیریت ہوتی ہے اول اُس خطے سے تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی تگ و دوں ہوتی ہے۔
تعلیم سماج میں موجود جمود کا خاتمہ کرتی ہے ، بےحرکت نوآبادی کو اپنے وجود سے منسلک بھیانک صداقت کی تشخیص کرواتی ہے پھر بھلے ہی چند لوگ شعور رکھتے ہوں مگر وہ اپنے اِس شعور و علم کی پورے قوم میں پرچار پر جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔ یہ اُس قوم کے باشعور ، صداقت ، زمینی حقائق سے واقف لوگوں کا قومی فریضہ بھی ہوتا ہے۔ بقول سارتر ہم معاشرے میں کوئی بھی تبدیلی لے آنے کی کوشش پر پُرامید نہیں ہوسکتے مگر اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم کسی جماعت کا حصہ نہیں بن سکتے۔ کہنے کا مطلب محض اپنے آپ کو فریب سے بچانا ہے اور وہ کرنا ہے جو ہم کرسکتے ہیں جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔
ایک نوآبادی کے لئے تعلیم یافتہ طبقہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اُسی سے قوم کی بیشتر امیدیں بندھی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر یہی خواندہ طبقہ ہی اپنی پہچان اور فرائض سے غفلت میں رہے تو پھر یقیناً کامیابی فاصلے اور بڑھا لیتی ہے۔ہماری خواندگی ابھی تک ہمیں صبروتحمل سے اختلافات سننے کا سبق نہیں دے سکی ہے، نہ ہی اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کا حوصلہ۔ ہم پڑھے لکھے ہوکر بھی تنقید کو معاشرے اور زیست میں جگہ دینے سے قاصر ہیں۔ ہمیں ہر وہ شخص زہر لگتا ہے، واجبِ نفرت لگتا ہے جو ہمارے نظریات یا راستوں سے اختلاف رکھتا ہے۔ ہمیں محض وہ لوگ چاہئے جو بالکل ہمارے ہی نظریات کے پیروکار ہوں۔ تنقید برائے تعمیر کو بھی خود پر ایک حملہ تصور کرتے ہیں، یا کسی گستاخی سے کم تو ہرگز نہیں سمجھتے۔ہر شخص خود کو معتبر سمجھتا ہے اور خود ہی کو دانشور و عاقل گردانتا ہے۔ ایک ہی مقصد کے حصول کے لئے متعدد مختلف انجمیں وجود رکھتی ہیں، ایک ہی قومیت ہے، ایک ہی نصب العین ہے مگر راہیں جدا جدا ۔یہ سب اس لئے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ہم اول قابلِ ترجیح سچائی سے دور ہیں یا پھر جاننے کے باوجود بھی اسے قبول کرنا نہیں چاہتے۔
حقیقت یہ ہیکہ تعلیمی طبقہ بھی اَن گنت دھڑوں میں خود کو بانٹ چکی ہے، جن میں سے بیشتر حقیقتاً قومی خدمت کے خواہاں ہیں مگر دیگر محض قومی نام پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اِس طبقے میں ایک ایک فرد محض حقیقت پسند ہوتا اور سچائی کاساتھ دیتا تو شاید یہ سارے انجمن ایک ہی سطح پر متحد ہوتے دکھائی دیتے۔
مگر جو حقیقت ہمارے سامنے ہے وہ قابل افسوس ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ بالخصوص تنظیموں سے جڑے نوجوانوں کو سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا کہ آخر انہیں کس طرح خود کو نرگسیت جیسے بیماری ، بےایمانی اور نجی مطلبی وجوہات سے پاک رکھ کر قوم کے لئے کام کرنا ہے۔ قوم کی خدمت کے نام پر محض سیاست کرکے دشمن کو خوش اور خود کو دھوکہ دینے سے گریز کریں۔ آپ جان لیں اور اِس حقیقت کو مان بھی لیں کہ ہم غلام ہیں ، ایک نوآبادی ہیں، قابض قوم کسی صورت ہمارے حق میں انصاف کے خواہاں نہیں ہونگے۔ اپنے زاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایمان کا سودا کرکے آپ کچھ وقت کے لئے سیر ہونگے مگر بالآخر وہ قابض تمہیں ڈس لیگا۔اور یہی حقیقت ہے۔ صرف ایک بار اپنی ذات سے یہ سوال کریں کہ کیا آپ واقعی میں قوم کے خواہا ہیں ؟ کیا آپ واقعی اپنے قوم کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو اپنے گریبان میں جھانکے ، دیکھیں کہ آپ کتنا سچ بول رہے ہیں؟ اپنے آپ کو فریب نہ دیں ، اپنا فکر ، اپنی سوچ اور نظریوں کو اِس قدر پختہ بنائیں کہ کوئی چاہ کر بھی آپ کو منقسم نہ کرسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں