بی ایس او کا دو روزہ کیڈربیسڈ نیشنل اسکول کوئٹہ میں اختتام پذیر

284

 

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا دو روزہ کیڈربیسڈ نیشنل اسکول شال میں منعقد کیا گیا جس میں بلوچستان بھر کے دور دراز علاقوں سے 67 تنظیمی کیڈرز نے شرکت کی، تربیتی اسکول میں شال کے علاوہ، مستونگ، خاران، خضدار، وڈھ، اتھل، پنجگور، کیچ اور نصیرآباد زون سے سینئر کیڈرز نے اپنی شرکت کو یقینی بنائی-

اسکول کا آغاز بلوچ قومی ترانہ سے کیا گیا جس کے فرائض شیہک بلوچ اور سہیل بلوچ نے سرانجام دیئے-

بعدازاں شہدائے بلوچستان اور دنیا بھر کے شہیدوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے عظیم شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا گیا-

اسکول کا ابتداء بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل چنگیز بلوچ نے کیا-

انہوں نے کہا کہ تربیت سازی کی یہ نئی روایت بی ایس او کی معیاری بڑھوتری اور مضبوط و مستحکم قیادت کی تشکیل کو یقینی بنانے کا ضامن بنے گی۔

انہوں نے نیشنل اسکول کے انعقاد کو تنظیمی قیادت کے بی ایس او کو علمی درسگاہ کے طور پر تعمیر کرنے کے وژن کا تکمیل قرار دیا اور کہا کہ یہی وہ واحد طریقہ ہیکہ جس سے بلوچ قوم کو نظریاتی طور پر پختہ اور مضبوط قیادت فراہم ہوگی۔

اسکول کے پہلے روز کا پہلا سیشن سیکرٹری جنرل چنگیز بلوچ نے چیئر کیا جبکہ مرکزی سیکریٹری اطلاعات و نشریات اورنگزیب بلوچ نے لیڈآف دی-

پہلے سیشن کا موضوع ‘سیاسی و سماجی نظاموں کے ارتقاء تھا۔ جسکا آغاز کرتے ہوئے اورنگزیب بلوچ نے انسانی سماجوں کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ قدیم اشتراکی سماج کی خدوخال اور اس عہد کے انسانوں کی رہن سہن، سماجی تنظیم اور ذرائع پیداوار پر مفصل بحث رکھی گئی۔ جس میں عہد وحشت، عہد بربریت اور عہد تہذیب کی جانب گامزن تمام مراحل کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا-

انسان کا فطرت کی دستیاب وسائل سے استفادہ حاصل کرنے اور بعدازاں آلات کی دریافت و ترقی اور زندگیوں کو سہل بنانے کے سفر پر روشنی ڈالی گئی۔ اور خاص طور پر قدیم اشتراکی سماج سے غلام داری کی جانب قدم رکھنے کے بنیادی عوامل کا تاریخی مادیت کے سائنسی رو سے تجزیہ پیش کیا اور وضاحت کی کہ کیسے انسان نے اپنی محنت سے ارتقاء کے سفر کو آگے بڑھایا اور مادی ضرورتوں کے تحت نئی سماجی تنظیم کی-

غلام داری عہد کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ چشمے اور پانیوں پر رسائی کیلئے مختلف جنگوں کے نتیجے میں غلام داری کی بنیادیں پڑنا شروع ہوئیں اور غلاموں کی محنت و مشقت سے پیداوار میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی اور ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا جو جسمانی مشقت سے مکمل آزاد ہوگیا اور نجی ملکیت کا حجم بڑھتا چلا گیا۔ اسی دور میں جسمانی مشقت سے آزاد مخصوص طبقے نے سائنس اور فلسفے پر سوچ بچار کا آغاز بھی کیا۔ اور ساتھ ہی آلات پیداوار کو بھی بڑے پیمانے ترقی دی گئی جس سے پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا-

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ غلام داری نظام سے ہی جاگیرداری نظام کی بنیادیں پڑنا شروع ہو گئیں اور غلاموں سے محنت مشقت اور جنگیں کروانے والی طبقہ بڑی بڑی جاگیروں کی مالک بن گئے-

جاگیرداری نظام کے اندر چھوٹے قبائل یا اقوام کی زمینوں پر قبضہ یا انہیں مطیع بنانے کے سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے اور لوٹ کھسوٹ و استحصال کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں یورپی ایمپائرز کا دنیا کے دیگر خطوں پر یلغار کی تاریخ بیان کی گئی-

جاگیرداری دور میں سرمایہ داری نظام کی بنیادیں پڑنے اور قومی ریاستوں کے تصورات کے ابھرنے کا تاریخ بیان کیا گیا اور قومی سوال کے بنیادوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی جس میں یورپ میں بننے والی قومی ریاستوں کے ظہور کے ساتھ فرانسیسی انقلاب پر تفصیلی بحث رکھی-

سرمایہ دار طبقہ کے جنم اور انکی تحاریک کے بنیادی عوامل کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی اور بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے استحکام، عروج اور زوال و تضادات پر سائنسی تجزیہ پیش کیا-

نوآبادیاتی دور اور سامراجیت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں پر شاندار بحث رکھی اور ساتھ ہی انسانی ارتقاء کے مزید آگے بڑھتے رہنے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے بلند تر انسانی سماج کے تشکیل کا تناظر پیش کیا-

اورنگزیب بلوچ کی لیڈآف کے اختتام کے بعد سوالات کا موقع فراہم کیا گیا اور ساتھیوں نے موضوع کے متعلق اہم سوالات رکھے-

بعدازاں رکن مرکزی کمیٹی شیرباز بلوچ نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انسانی ارتقاء کے پہلے ادوار کے مادی حالات کا جائزہ پیش کیا اور پیداواری صلاحیتوں پر بات رکھی۔ انہوں نے اس عہد کے آلاتِ پیداوار اور ذرائع پیداوار کے ساتھ انسانی محنت پر بات رکھی اور تغیر و ارتقاء کے تاریخی عناصر کا جائزہ پیش کیا- اورنگزیب بلوچ نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹ کر پہلے سیشن کا باقائدہ اختتام کیا-

دوسرا سیشن محکوم اقوام اور بلوچ قومی جدوجہد کے موضوع پر تھا جسے سینیئر وائس چیئرمین غلام محمد بلوچ نے چیئر کیا جبکہ لیڈآف مرکزی سینئر جوائنٹ سیکریٹری جیئند بلوچ نے دی۔

جیئند بلوچ نے محکوم اقوام کی جدوجہد پر بحث کا آغاز سرمایہ داری عہد کے ابتداء اور اسکے نتیجے میں اقوام پر سامراجی یلغار کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور استعماری قوتوں کے خلاف ابھرنے والی محکوم اقوام کی جدوجہد پر تفصیلی بحث رکھی-

پہلی عالمی جنگ سے پہلے اقوام کی جدوجہد اور عالمی جنگوں کے بعد کی نوآبادیاتی دور پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سامراجی ممالک کے مکروہ کردار اور محکوموں کی عظیم الشان جدوجہد، انکے تاریخی کردار اور تغیرات پر روشنی ڈالی گئی-

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سوویت دور کے اندر محکوم اقوام کی جدوجہد میں شایان شان ترقی اور انقلابی نظریات کے بل پر جاری جدوجہد کا ذکر کیا اور اس عہد کے اندر سوویت یونین اور امریکی سامراج کے کردار پر بات رکھی-

بلوچ قومی جدوجہد کو زیربحث لاتے ہوئے بیسویں صدی کے آغاز میں منظم قومی جدوجہد کے ابتدائی دور کا تذکرہ کیا اور اسی تناظر میں مختلف ادوار کا بحث شامل کرکہ برطانوی راج کے دور اور برطانیہ کے انخلاء تک کے سفر کا مفصل تاریخ بیان کیا-

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے بلوچستان کی بحیثیت ریاست وجود اور پھر 1948 کے جبری الحاق پر جائزہ پیش کرکہ اس کے خلاف اٹھنے والی بغاوتوں اور اتار چڑھاؤ کی تاریخ بیان کی-

نیشنل عوامی پارٹی کے کردار اور پھر ساٹھ کی دہائی میں بی ایس او کی تشکیل کے ساتھ قومی سیاست میں عظیم بڑھوتری پر بحث کرتے ہوئے قومی جدوجہد کی خدوخال کے تشکیل اور قوم کی بکھری پرتوں کو ایک لڑی میں پرو کر منظم شکل میں آگے بڑھانے پر اسکے نظریاتی و سیاسی پہلوؤں کو زیربحث لایا گیا-

بی ایس او کی عظیم جدوجہد پر بحث کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس ادارے نے وہ انقلابی کارنامے سرانجام دیئے کہ جن سے قومی سیاست کو ایک جست کی صورت میں بلندی نصیب ہوئی اور دنیا بھر میں بلوچ سیاست ترقی پسند انقلابی جدوجہد کا چہرہ مانا جانے لگا-

انہوں نے وضاحت کی کہ بی ایس او نے روایتی بلوچ سیاست کی طبیعت کو بدل کر اسے دنیا کی جدید سیاسی جدوجہد سے ہمکنار کر دیا اور دنیا میں بی ایس او کی چھاپ انقلابی تنظیم کے طور پر قائم ہو گئی-

بی ایس او کی بحیثیت کیڈرساز ادارے کے عظیم کنٹریبیوشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ نرسری ہے کہ جس نے ماس پارٹی کی بنیاد رکھی اور بی این ایم کی شکل میں قومی پارٹی کی خلا کو پُر کیا۔ اور بی این ایم کے بینر تلے قوم کی مجموعی قوت مجتمع ہو گئی، مگر بدقسمتی یہ رہی کہ قیادت نے پاور کوریڈور پہنچنے کے بعد سسٹم میں ایڈجسٹ ہو کر قومی طاقت کو منتشر کر دیا جس کے بعد سیاست زوال کا شکار ہو گئی اور اسکے بعد دوبارہ وہ استحکام نہیں مل سکا-

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد محکوم اقوام کی جدوجہد دنیا بھر میں مایوسی اور پستی کا شکار ہوگئیں جبکہ اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکی سامراج کی جنوبی ایشیاء اور سنٹرل ایشیاء میں آمد سے خطے کے حالات یکسر بدل گئے اور خطے کے طاقتوں کی توازن میں ایک شفٹ آیا۔

انہوں نے اس دور میں بلوچ سیاست پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ قومی قیادت نے سامراجی عزائم خاص طور پر پرویز مشرف کی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ڈٹ کر منصوبوں کو روکنے کی کوشش کی جس پر ریاست نے بزور طاقت قومی قوت کو منتشر کر دیا جس کے ردعمل میں بلوچستان میں ایک بڑی شورش برپا ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں نواب اکبر خان بگٹی جیسے قومی رہبر کی شہادت کا سانحہ بھی ہوا اور بلوچستان ایک نہ تھمنے والی آگ کی لپیٹ میں آگیا-

گزشتہ دو دہائیوں کی سنگین حالات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے اس دور میں ہر محاز پر قومی حقوق کے پاسبانی کی کوشش کی ہے مگر بدقسمتی سے کوئی منظم و متحد قومی قوت تعمیر کرنے میں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ سیاسی تربیت اور فکر و شعور پر مبنی جدوجہد کیلئے راہیں مسدود ہو کر رہ گئیں-

انہوں نے بتایا کہ طلبہ سیاست چونکہ اس تمام عرصے میں خاص طور پر زیرعتاب رہی ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، اسی بناء پر طلبہ سیاست گزشتہ دہائی میں پستی کی جانب گئی ہے۔ مگر بی ایس او نے ان تنگ و تلخ حالات کے باوجود نظریات کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور انتہائی بردباری کے ساتھ جدوجہد کا سفر جاری رکھا جس کے حاصلات آج ایک منظم کیڈر کی تعمیر اور اس نیشنل اسکول کے کامیاب انعقاد کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور یہیں سے روشن مستقبل کی امیدیں مستحکم ہیں-

دوسرے سیشن کی لیڈآف کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کیڈرز نے اہم سوالات بھی رکھے۔ جس کے بعد کامریڈ رضوانہ بلوچ نے بلوچ خواتین کے سوال پر بات رکھی اور ان کی شناخت کو درپیش مسائل پر مفصل بحث کی۔ پھر سعدیہ بلوچ نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے موجودہ سماجی حالات کے اندر بی ایس او کی اہمیت و ضرورت پر بات رکھی-

بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے وحید انجم نے قوم اور قوم دوستی کی تاریخ پر تفصیلی بات رکھی اور مختلف ادوار میں بلوچ قومی سیاست کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ پیش کیا۔ جس کے بعد چیئرمین ظریف رند نے تاریخی تناظر میں قوموں کے ارتقاء پر بات رکھی اور بلوچ سیاست کی اینٹی سامراج طبیعت پر بحث کیا اور استعماری قوتوں کے خلاف تاریخی جائزہ پیش کرکہ مستقبل کے تناظر پر گتفگو کی-

جیئند بلوچ نے سوالات کی روشنی میں دوسرے سیشن کو سمیٹ کر اختتام کیا۔

اسکول کے پہلے روز کا تیسرا ایجنڈا تربیتی ورکشاپ تھا جو کہ چیئرمین ظریف رند نے لیڈ کیا جس میں تنظیمی ڈھانچے اور لکھائی کے مشق شامل تھے-

ورکشاپ میں سب سے پہلے تنظیم کی اہمیت پر بات رکھی گئی اور ممبر کی اہمیت پر بحث رکھی-

بعدازاں تنظیمی ڈسپلن پر مفصل جائزہ پیش کیا پھر تنظیمی ڈھانچے واضح کیئے-

ورکشاپ میں کیڈرز کو ایجنڈے ترتیب دینا سکھایا گیا اور پھر لکھائی کے مشق کرائے گئے، جس میں خبر لکھنا، رپورٹ لکھنا، پریس ریلیز لکھنا، پریس کانفرنس لکھنا، ڈرافٹ لکھنا، سیکریٹری رپورٹ لکھنا اور دیگر اہم تنظیمی کام کی پریکٹس کروا کر تمام ارکان کو اسائنمنٹ بھی دیئے گئے-

علاوہ ازیں سیشنز کے درمیانی بریک میں ساتھیوں نے انقلابی اشعار اور ترنم کے ساتھ نظم بھی پڑھے۔