بندوق میں پیوست فدائین کا فلسفہ ۔ روکین بلوچ

830

بندوق میں پیوست فدائین کا فلسفہ

تحریر:روکین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سرزمین سے محبت جب نظریہ میں شامل ہو تو وہ محبت فقط جاگتے آنکھوں میں پنپنے والے خوابوں میں حسین لمحات کو تصور کرکے ہزاروں خیال پالنے کے بجائے اس عاشق زمین سے عمل کی مانگ کرتی ہے، اس دیوانے کا ہر عمل تب زمین و اسکے تنظیم کے لئے ہوتا ہے، وہ نظریاتی طور پر اس محبت میں اس قدر گر جاتا ہے کہ اپنے زندگی سے لیکر موت کے فیصلے کی آخری لمحات تک وہ اس عمل کو انجام دے رہا ہوتا ہے-

سربلند کے ہاتھوں میں موجود ریحان کی بندوق اس نئے جنگ کی آغاز کے تسلسل کو برقرار رکھنے کا اعلان تھا اور سربلند اس دن ہی سے اپنے تنظیم کے اس فیصلے سے عملی طور پر جڑ گیا تھا جس دن اسی بندوق کو لیکر ریحان نے اس قومی جنگ کے نئے رخ کو عملی جامہ پہنایا تھا-

بلوچ قومی فوج کے ساتھیوں نے جس طرح آخری گولی کے فلسفے کو دشمن کی ہار میں بدلنے کی ایک نئی ترکیب بنائی اسی طرح مجید برگیڈ کے فدائی ریحان کے اس بندوق کو بلند کرکے دشمن پر واضح کررہے ہیں کہ بلوچ کی مرضی و منشاء کے بغیر اسکی سرزمین پر کامیابی حاصل کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے-

یہ انہی حقیقی فرزندوں کی بدولت ہے کہ آج بلوچ قومی تحریک ایک فیصلہ کن موڑ پر آچکا ہے، ریحان کی بندوق اور امیر کی آخری گولی نے اس جنگ میں شامل جنگجوؤں کو ایک نئی جلاء بخشی اسی کاروان کا ایک ساتھی سربلند جس نے باطل کے دامن میں ایک فیصلہ کن معرکہ پار کرکے بلوچ پھازگ کو عزت بخشی –

سربلند کے ساتھ گزرے کچھ پل میں اسکی قابلیت کی حسن کا اندازہ ہوگیا لیکن ایک فدائی اس سے بڑھ کر ایک گوریلا سپاہی سربلند نے کبھی ہمیں اس بات کا بھنک تک لگنے نہیں دیا کے وہ اس عمر میں اتنا عظیم فیصلہ لے چکا ہے یقیناً ریاست پاکستان اور چین کے وہ تمام تھنک ٹینک آج بلوچ لبریشن آرمی کے غزب کو روکنے میں اسلئے ہی تو ناکام ہیں کہ تنظیم کے ساتھی اپنے اصول رازداری و حکمت عملی سے بخوبی آگاہ ہیں –

جب دھرتی کا حقیقی و مخلص فرزند وطن کی محبت میں لے گئی فیصلے کے اختتام تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنی ہر خواہش قربان کر چکا ہوتا ہے سربلند تم نے فلسطین کی احمد مارش کی یاد تازہ کردی جہاں احمد مارش اپنے خودکش حملہ سے قبل اپنے دشمن کو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ میرا یہ عمل اپنے قوم کے ان روتی بوڑھی ماؤں اور تمھارے بموں سے کچلے ان معصوم فلسطینی بچوں کا بدلہ ہے –

سربلند میرے دوست آج باتیل تمھاری بہادری پر نازاں ہے تم نے باتیل کی شان کو اور مزید سر بلند کردیا آج تم جیسے وطن کے جانبازوں کے بدولت قبضہ گیر یہ قبول کرچکا ہے کے بلوچ دھرتی کے فرزند اپنے وطن کی دفاع میں ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں –

سربلند کے عمل نے اس حقیقت کو پختہ کردیا کہ ریحان کا بندوق کسی بھی صورت گرنے والا نہیں جس طرح سربلند نے ریحان کے بندوق کو تھامے رکھا اسی طرح کئی سربلند اگے بھڑ کر اس بندوق سے جڑے عمل کو آگے بڑھائیں گے اور یہی ہم سب کا ایمان ہے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں