ایسی خاموشی کہ خدا کی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں
تحریر:محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
ایک نفسیاتی مریض جسے اسپتال پہنچانا چاہیے تھا اسے دوسرے نفسیاتی مریضوں نے کئی اندھی گولیاں مار کر قتل کر دیا اور دوسری طرف سندھ کے سبھی نفسیاتی مریض سندھ کی نفسیاتی مرض میں مبتلا پولیس کی واہ واہ کر رہے ہیں
شرم تم کو مگر آتی نہیں
یہ کیا ہے؟یہ کیوں ہے؟یہ کیا ہو رہا ہے؟یہ کون کر رہا ہے؟اور یہ کب تک ہوتا رہے گا اس طرف کوئی چیخ نہیں سنائی دیتی اور اگر ایسی چیخ سنائی نہیں دیتی تو آج ایک نفسیاتی مریض چانڈیو پولیس گردی کا شکار ہوا ہے اور کل کوئی اور ہوگا
یہ انصاف نہیں پولیس گردی ہے
ظلم ہے
بربریت ہے،ننگی وحشت ہے
اور یہ سب کچھ سندھ میں ہو رہا ہے
اس وقت سندھ میں ایسی خاموشی ہے کہ خدا کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں
نہیں معلوم آگے کیا ہونے والا ہے
وہ معصوم جس کے ساتھ وحشی سلوک ہوا وہ بھی قبر میں اور جس نفسیاتی مریض سے یہ ہوا وہ بھی قبر میں اور واہ واہ کرنے والے بے شرم کچھ سوچنے سمنجھے کی صلاحیت سے محروم
بس اب انتظار کریں کہ یہ نفسیاتی مرض میں مبتلا پولیس آگے کیا گل کھلاتی ہے
اور کوئی تو اٹھے اور مریض پولیس کو کہے
’’پولیس گردی نہ منظور!!‘‘
ایسے قتل توسندھ کی ذہنی مفلوج پولیس کے خلاف ایف آئی آر ہیں!
میں کس سے کہوں؟
سندھ کس سے کہے؟
ٹھٹہ کس سے کہے؟
اور وہ ماں،بیوی،بچے کس سے کہیں جن کا مجرم ذہنی فرد پولیس نے زندہ پکڑا اور قتل کر دیا
پولیس نے شہر میں تیس سالوں سے قتل ہونے والے کتنے مجرموں کو زندہ پکڑا اور پھر قتل کیا؟
کچے،پکے کے دھاڑیل پولیس کی پکڑ سے آزاد ہیں
زمینوں کے قبضہ گیر پولیس کے ہاتھوں فل فرائی نہیں ہو تے
فضیلہ سرکی سے لیکر سیکڑوں لڑکیوں کی بازیاب خود ایک سوال ہے اور ان کے اغوا کار پولیس کے ہاتھوں فل فرائی نہیں ہو تے
سندھ کے وہ مجرم جو سندھ کی بچیوں کو دوستی نہ رکھنے پر کاری کر دیتے ہیں پولیس کی پکڑ میں نہیں آتے
اُم رباب کے مجرم کیوں پولیس کے ہاتھوں فل فرائی نہیں ہو رہے؟
وہ سردار،میر پیر بھوتار جن کے نالائق بچے ہر روز سندھ کی ہاریانوں سے ریپ کرتے ہیں پولیس انہیں کیوں قتل نہیں کرتی
ووٹ چور آزاد ہین۔پانی چور آزاد ہیں،زمینوں کے کھاتے پھراکے کسی اور کے نام کر دینے والے آزاد ہیں
غریبوں کی ملکیت پر قبضہ کرنے والے،مسکینوں کی جوان لڑکیوں کا اغوا کرنے والے آزاد ہیں
معصوم ہندو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے والے آزاد ہیں
پولیس میاں مٹھو کے سینے کو کیوں گولیوں سے چھلنی نہیں کر دیتی؟
پولیس سرہندی پیر کو کیوں نہیں اُٹھا رہی
ان مقتول بیٹیوں کے مجرم پولیس کے ہاتھوں کب فل فرائی ہونگے جن کی ننگی لاشیں سوکھے نالوں میں ملتی ہیں
پولیس کے پاس ان ماؤں کی فریاد کب پہنچے گی جن ماؤں کی بیٹیوں کو بھوتار کے لڑکے ریپ کر گئے اور وہ بچیاں خود سوزی کر بیٹھیں!
ایسے قتل کو خود پولیس کے خلاف پہلی ایف آئی آر ہیں
اور ان قتلوں کا اس سے بڑا اور کیا احتجاج ہو سکتا ہے کہ ان گھائل لاشوں کو دفن ہی نہ کیا جائے کہ کوئی تو سن سکے کوئی تو دیکھ سکے اور کوئی تو کہہ سکے
”سندھ میں پولیس گردی نہ منظور!
نا منظور
نا منظور!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں