لاپتہ جمیل کی بیٹی اور لاپتہ نجیب بلوچ کی ہمشیرہ اسماء بلوچ نے آج اپنی والدہ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرے ابو جمیل رحمت کو ہمارے علاقے آواران سے فورسز نے میری آنکھوں کے سامنے آٹھ سال پہلے ٢٩ اپریل ٢٠١٣ کی صبح جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کر دیا، والد کی طویل جبری گمشدگی سے ہم پہلے سے ہی شدید اذیت اور کرب سے گزر رہے تھے کہ دو ہفتہ پہلے یعنی ١١ اگست کو ایف سی نے میرے بھائی نجیب بلوچ کو پنجگور سے کراچی جاتے ہوئے رخشان کور صرادک چیک پوسٹ پر بس سے اتار کر NIC چیک کرنے کے بعد انہیں اپنے تحویل میں لے کر لاپتہ کر دیا.
انہوں نے مزید کہا کہ میرا بھائی نجیب بلوچ گزشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں محنت مزدوری کرتے رہے ہیں، حالیہ دنوں وہ چھٹیاں منانے گھر آئے تھے، ابھی چھٹیاں ختم ہونے پر وہ واپس پنجگور سے کراچی اور وہاں سے امارات جانے والے تھے کہ اس کو جبری طور پر اٹھا کر لاپتہ کیا گیا،
اس سے پہلے میں اپنے والد کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتی آرہی ہوں، ہم نے ابو کی بازیابی کیلئے آٹھ سالوں سے احتجاج کے تمام تر جمہوری اور آئینی طریقہ کار اختیار کیے، عدالتی نظام کو آزمایا، ليکن بجائے اس کے کہ میرے ابو کو بازیاب کیا جاتا ابھی میرے بھائی کو بھی جبری لاپتہ کیا گیا –
اسماء بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اپنی فریاد لے کر آج اتنی دور یہاں کوئٹہ آئے ہیں اور آپ حضرات کو بتاتا چلوں کہ اس سے پہلے بھی ہمارے خاندان کے اور لوگوں کو اس ظلم تسلسل کا شکار بنایا گیا ہے، ہمارے خاندان کو اجتماعی ظلم کا شکار بنایا جا رہا ہے، والد کی گمشدگی کے بعد بھی ہمیں سکون سے بیٹھنے نہیں دیا گیا، ماسٹر خدا بخش جو کہ میرے ابو جمیل کے کزن تھے اور گورنمنٹ مڈل سکول رضائی بازار گیشکور میں ٹیچر تھے، ملٹری کے کرنل کاشف نے اسے گیشکور فوجی کیمپ میں بلایا اور ٣ مارچ ٢٠١٥ کو اسکی مسخ شدہ لاش خضدار کے اسپتال میں حکام کے حوالے کیا گیا. اسی طرح سبزل قومی جو میرے ابو کا ایک دوسرا کزن تھا اسکے گاؤں میں فوجی آپریشن کے دوران اسکے گھر بار جلا دیئے گئے وہ فیملی کے ساتھ مجبوراً سہر کولواہ ہجرت کر گئے، فورسز نے انہیں ١٥ ستمبر ٢٠١٧ کو مادگ کلات سے اٹھایا اور ایک ہفتے کے بعد اسکی لاش درخت سے ٹنگی ہوئی برآمد ہوئی، ناکو سبزل جو محض ایک مزدور تھے.
انہوں نے کہا کہ میرے والد اور اب میرے بھائی کو محض اس بنیاد پر اٹھا کر جبری لاپتہ کیا گیا کہ ہمارے رشتہ دار ہمارے لوگ قومی حقوق کی بات کرتے ہیں، ایک آزاد فضاء میں جینے کی بات کرتے ہیں.
کیا ہمیں اپنے ہی زمین پر سکون سے جینے کا حق نہیں ہے؟
کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ کیا اپنے ابو کیلئے آواز اٹھانا کوئی جرم تھا اور ہمیں اب جرم کی سزا ہمارے بھائی کو اٹھا کر ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو دیا جا رہا ہے،
میری بوڑھی اور بیمار ماں بیٹے کے گمشدگی سے نڈھال ہیں، نا کھانا کھاتے ہیں نا بستر پہ سوتے ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ زندان میں میرا بیٹا کس حال میں ہوگا؟
خدارا ہمیں اس شدید زہنی کیفیت سے نکالیں، ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے؟ اگر میرے ابو یا بھائی نے کوئی جرم کیا ہے تو قانونی رستہ اپنا کر انہیں سزا دیجئے، لیکن اس طرح اٹھا کر سالوں غائب کرنا خود ایک غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے.
انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے انتہائی مشکور ہیں جو آپ لوگوں نے ہماری فریاد سنی اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہماری اس فریاد کو اپنے میڈیا ہاؤسز اور اخبارات میں کوریج دینگے اور اس ظلم کے خلاف ہماری آواز بنیں گے اور ہماری عرض حکام بالا تک پہنچا دیں گے۔