وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جینوا کنونشن کے آرٹیکل کی روح سے تنازعات کے اندر خواتین اورغیر مسلح افراد چاہے اس کا تعلق کسی بھی جنگی شخصیات سے ہو اس کو قتل کرنا دور کی بات ہے اس کو نقصان دینا جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں ناصرف جنگی جرائم یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے بلکہ اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
ماما قدیر نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستانی فورسز نے ضلع کیچ کے تحصیل تمپ گومازی میں دوران آپریشن سیاسی رہنماء غلام نبی کے کزن بی بی کیگد بلوچ کو شہید کیا اور پانچ افراد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ہے جنکی شناخت مقبول ولد ابراہیم، خفا ولد سیٹھ علی، الم ولد سلام، زمیر ولد حسین کے ناموں سے ہوئی ہے۔
ماما قدیر کا کہنا تھا بی بی کیگد پہلی خاتون نہیں جیسے پاکستانی فورسز نے اجتماعی سزا طور پر شہید کیا ہے ان بیس سالوں کے اندر پاکستان حلیمہ بلوچ، شہناز بلوچ، بختی بلوچ سمیت خواتین کو شہید کرچکی ہے اور متعدد خواتین کو اغواء کیا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ اہم ترین امر یہ کہ ہماری خاموشی مسلسل پاکستانی فوج کی ظلم کو تقویت دے رہا ہے میں پاکستان کےسول سوسائٹی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے خلاف آئین و قاتون کے اندر آواز اٹھائیں اور ساتھ بین الاقوامیی اداروں سے اپیل کرتا ہوں جینوا کنونشن کے تحت بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیں اور پاکستان پر دباو ڈالیں۔ اس کے علاوہ میں سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سوشل میڈیا میں بلوچوں کے آواز بنیں۔
دریں اثناء گومازی واقعے کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس طرح رونماء ہونے والا پہلا واقعہ نہیں جو سیکورٹی فورسز کی جانب سے ہوا ہے بلکہ اس طرح کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ہونے والے واقعات میں حیات بلوچ کی موت سے پہلے بھی کئی واقعات ہوچکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ تسلسل رکنے کا نام نہیں لے رہی جس کی زندہ مثال بانک کیگد بلوچ کا واقعہ ہے۔ کیگد بلوچ کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیکیورٹی فورسز سیکورٹی کے بجائے اپنی سرکشی پر اتر آئے ہیں جو انتہائی خطرناک عمل ثابت ہوسکتا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ہم حکومت بلوچستان سمیت وزیراعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس پورے واقعے کی بہتر سے بہتر تحقیقات کی جائے۔