کتاب: پری ہسٹاریکل بلوچستان | تجزیہ: جی آر مری

631

کتاب : پری ہسٹاریکل بلوچستان

مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری | تجزیہ: جی آر مری

دی بلوچستان پوسٹ

کتاب انسان کا وہ ساتھی ہے جو اپنے دوست کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا میرا ہمیشہ کتابوں سے دوستی اور وابستگی رہا ہے۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا کافی شوق ہے اور انشا اللّٰہ ہمیشہ رہے گا۔ میں نے کتابوں سے بہت کُچھ سیکھا اور سمجھا ہے۔

مجھے کتابوں سے محبت ہے اور خاص طور جو کتابیں میرے سرزمین بلوچستان کے بارے میں لکھی گئی ہیں اُن کتابوں سے مجھے ایک الگ سا محبت ہوتا ہے اور میں شوق سے اور پورے توجے کے ساتھ وہ کتابیں پڑھتا ہوں جو میرے وطن بلوچستان کے بارے ہوتے ہیں۔

میں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے جس میں تاریخی، سیاسی، سماجی اور ادبی کتابیں شامل ہیں۔ آج میں ایک ایسے کتاب کا ریویو لکھنے جارہا ہوں جو سرزمین بلوچستان کے تاریخ پر مبنی ہے۔

یہ تاریخی کتاب ڈاکٹر شاہ محمد کی لکھی ہوئی کتاب ہے جس کا نام ” پری ہسٹاریکل بلوچستان ” ہے۔ جب اس کتاب کا نام سُنا تو دل ہی دل میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرونگا۔

کسی دوست کو پیغام بیجھا کہ مجھے یہ کتاب لا کر دے مگر دوست کے ہاتھوں نہ ہوسکا اور میرا اچانک شال جانے کا پروگرام بنا وہاں جاکر میں نے بذات خود بلوچ مصنف ڈاکٹر شاہ محمد مری سے ملاقات کی اور زبان کے بارے میں کافی دیر تک ڈسکشن جاری رکھا آخر الوداع کرنے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے یہ کتاب بطور تحفہ دیا جس کا میں ڈاکٹر صاحب کا شُکر گُزار ہوں۔

ایک تو ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ کا تحفہ اور دوسری بات کہ میں پہلے سے اس کتاب کو پڑھنے کے لئے کافی بے چین تھا۔ تو اس خوشی میں میں نے کُچھ ہی دنوں میں اس کتاب کا مطالعہ کیا جو بلوچستان کے تاریخ کے حوالے سے ہے۔

ایک بات تو واضح ہے کہ جب بھی کوئی بندہ دلیل یا جواز پیش کرتا ہے تو اگلے کو ہار ماننا پڑتا ہے اسی طرح ہمیں بھی سائنس کے آگے ہمیشہ ہار ہی ماننا پڑا اور اس کتاب میں ڈاکٹر شاہ محمد مری بھی سائنس کے سامنے گُھٹنے ٹیک دینے پہ مجبور ہوئے ہیں۔

سائنس اُس تجربے کا نام ہے جو جواز اور حقيقت پر مبنی ہے جس کے سامنے کسی بھی کہانی یا قصّے کی کوئی اہمیت نہیں اسی طرح یہ سائنس سے ثابت ہوا ہے کہ بلوچستان 500 سال قبل مسیح نہیں اور نہ ہی ساتھ ہزار سال قبل مسیح ہے بلکہ بلوچستان کی تاریخ گیارہ ہزار سال قبل مسیح پر مشتمل ہے۔

یہ تاریخی کتاب کا پہلا جلد ہے جو پانچ چیپٹروں پر مشتمل ہے۔ جن میں مختلف تاریخی چیزیں بیان کی گئی ہیں۔

بلوچستان بلوچ قوم کی سرزمین ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی ارتقاء بھی اسی خطے سے شُروع ہوئی ہے۔ تاریخ ماضی کی کہانی کی حیثیت سے حتمی تبدیلیوں کے تسلسل کا ایک بیانیہ ہے۔ ہماری انسانی تاریخ کا صدر دفتر اور مکان تو ہماری زمین ہے۔ یہ مکان زمان کے اعتبار سے چار ارب ساٹھ کروڑ سال پُرانی ہے۔ ہمارا بلوچستان دو بلوچستان سے مل کر بنا ہے۔ ملینوں سال قبل جب ہم انسان اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔

آسٹریلیا کا پنوں اور مکران کی سسی بلوچستان کی اولین عشقیہ داستان ہے جو بلوچستان کا اولین عشق کہلاتا ہے۔

ملینوں سال تک زمین پر نہ کوئی مرد رہتا تھا اور نہ کوئی عورت رہتی تھی۔ ہم سے قبل یہاں صرف جانور تھے۔ اور جانوروں سے قبل ایک زمانہ ایسا تھا جب زمین پہ کسی قسم کی زندگی موجود نہ تھی۔ اس لیے کہ بہت عرصہ تک زمین اس قدر گرم ہوا کرتی تھی جس پہ کوئی جاندار رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ انسان تو سب سے آخر میں تشکیل پایا ۔

بارکھان اور ڈیرہ بگٹی میں پانچ کروڈ سال پرانے دفن شدہ ڈائنوسار، وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم کی ہڈیاں نکلی ہیں۔ جدید دور کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ بلوچستان کا علاقہ قدیم دور میں خشک اور بنجر نہ تھا۔ بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں اور بلوچستان کے پہاڑ اور میدان جنگلات سے بھرے ہوتے تھے جن میں مختلف قسم کے جانوروں کی بہتات تھی۔ اس دور کو “Wet era” (گیلا دور ) کہا جاتا ہے۔ جیالوجیکل اور آرکیالوجیکل شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بارانی عہد ابھی حال میں آٹھ دس ہزار سال قبل ختم ہوگیا ہے اور اس کے بعد (خشک دور ) شروع ہوا۔

بلوچی تھیریم نامی ایک بہت بڑی جسامت والے میمالیہ کے فاسلز ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک بے نظیر دریافت ہے۔ یعنی اس کرہَ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا جانور یہاں رہتا تھا اور یہ 30 ملین سے لے کر 20 ملین سال قبل کی بات ہے۔

اس کتاب میں پتھر کے زمانے کا بھی بہت بڑا ذکر ہے۔ پتھر کے زمانے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان جینڈر کی بنیاد پر فرق اور امتیاز کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ دونوں ساتھ مل کر شکار نہ کرتے تو بھوک سے مرجاتے۔ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر پتھروں کو تراش خراش کرکے اوزار بناتے تھے۔ پھل، جڑی بوٹیاں، اور بیجوں کو مل کر جمع کرتے تھے۔ مرد حضرات اگر شکار کرنے جاتے تھے تو عورتوں نے بیج کو بونا شروع کردی جس کی وجہ سے فصلیں کھلنے لگی اور اسی طرح لوگ شکار کو چھوڑ کر فصلیں آباد کرنے لگے اور اپنے بھوک کو مٹانے لگے یہاں تک کہ آنے والے وقت کیلئے بھی جمع کرنے لگے اس کام میں خواتین کا بہت اہم کردار رہی ہے۔

کائنات کی تاریخ کے اندر انسان ، ابھرنے والا آخری عظیم نوع (سپیشیز) ہے۔ جیالوجی ریکارڈ میں اُس کے فاسلز سب سے بلند تہوں میں موجود ہوتے ہیں، یوں انسان پراسیس کی بلند ترین پیداوار ہے ۔مہر گڑھ سبی سے تقریباً 26 کلو میٹر، اور ڈھاڈر سے 10 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ مہرگڑھ کے باشندے سورج کی پرستش کیوں اور کب سے کرتے تھے؟

تحقیقات نے ظاہر کیا ہے کہ 9000 ہزار سال قبل مسیح یہ علاقے انسانی آبادی کے اولین مقامات تھے۔ یہ فخریہ باتیں تو ہوسکتی ہیں تکبر کی نہیں۔ فخریہ اس لیے کی بلوچستان دنیا کی سب سے قدیم انسانی آبادی کا مرکز ہے۔ مگر تکبر اس لیے نہیں کرسکتے کہ پندرہ بلین سال پرانی کائنات کے آگے ، محض گیارہ ہزار سال کی کیا حیثیت ہے؟

اسی مہرگڑھ میں انسان پتھر یعنی ہجری دور میں رہا۔ اور پھر یہیں ہزاروں برس بعد دھات کے عہد میں داخل ہونے لگا اور کاپر دریافت کیا۔ اور کانسی اور لوہے کے دور میں داخل ہوا۔ اٹلی کے محققوں نے یہاں سے 300 دفن شدہ ڈھانچے نکالے جن میں 9 کے دانت ڈرل شدہ تھے۔ جب تک دنیا میں مہرگڑھ سے قدیم کسی تہذیب کی دریافت نہیں ہوتی تو اُس وقت تک حقيقت یہ رہے گی کہ دنیا میں گندم اور جَو کے یہ سارے تجربے ہوئے ہی بلوچستان میں، اور بلوچستانی عورتوں کے ہاتھوں۔ عورت تو مہر گڑھ کے زمانے سے ہمیں پال رہی ہے۔

بلوچستان کے مری قبائل کے علاقے کوئٹ منڈاہی وادی میں پتھر کی بنی ہوئی کلہاڑیاں ملی ہیں جنھیں انسان، کھانے کےلیے پودوں کی جڑیں نکالنے اور سست رفتار جانوروں کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ کوائٹ منڈاہی کے لوگ ننگے پاؤں پھرتےتھے، غاروں میں رہتے تھے اور تقریباً 3500 برس قبل مسیح سے تعلق رکھتے تھے۔

امیر توکل کمبوزیا نے لکھا کہ کاپر سب سے پہلے دریافت اور استعمال بلوچستان میں ہوا۔ دنیا کا ایک بہت اہم اور بنیادی انقلاب پہیہ کی ایجاد بھی برونز دور میں ، اور یہیں مہرگڑھ میں ہوتی ہے۔ مہرگڑھ سوم تو گویا کاپر پگھلانے کا زمانہ ہوا۔

اگر مذہب کی بات کی جائے تو گیارہ ہزار سال قبل کوئی منظّم مذہب تو موجود نہ تھا۔ بس مظاہر کے اوپر کنڑول کرنے والی فرضی قوتیں ہی تھیں۔ جیسے کہ یہ بادل کا دیوتا ہے۔ یہ چاند کی دیوی ہے۔ یہ ہوا کو قابو کرنے والا دیوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

تمام باتوں کا اگر میں مختصر بیان کروں تو مہر گڑھ کی کھدائی نے یہ بتایا کہ ہم سات ہزار سال پہلے سے سفید پوش ہیں اور ہماری تاریخ گیارہ ہزار سال پرانی ہے مہرگڑھ میں کھدائی کے دوران ماہرین نے آبادی کے کُل سات تہیں دریافت کی ہیں ۔ ان آبادیوں کی تہوں کی خصوصیات اور زمانہ ایک دوسرے سے بالکُل مُختلف ہیں۔ اسی مہرگڑھ میں انسان پتھر یعنی ہجری دور میں رہا۔ اور پھر یہیں ہزاروں برس بعد دھات کے عہد میں داخل ہونے لگا اور کاپر دریافت کیا۔ کانسی اور لوہے کے دور میں داخل ہوا۔ ہمارے تاریخ کے ساتھ ہمارے بلوچ خواتین کی بہت بڑی کردار رہی ہے جس کو کسی بھی طریقے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عورت نے کاشتکاری ایجاد کرکے انسانی زندگی کی شکار والی حالت ہی بدل ڈالی۔

بلوچستان ارضِ حیات ہے، آبِ حیات، اور مقامِ حیات ہے۔ ساری زندہ مخلوق یہیں کی ہے۔ نہرو نے ٹھیک کہا تھا کہ تاریخ کو الگ الگ خانوں میں تقسيم کرنا مشکل ہے، یہ تو بہتی ہوئی ندی ہے جس کی دھار کبھی نہیں رکتی۔ لہذا بلوچ تاریخ اب نسبتاً زیادہ مسلسل ہوگئی ہے۔ اس کتاب میں ایک فقرا لکھا ہے جو کافی درد ناک ہے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان مورخوں کی سرزمین ہے کاش ہم بے پیر ہوتے، بے میر ہوتے مگر بے مورخ نہ ہوتے۔ آج تک ہم اپنے تاریخ کا صحیح معنوں میں علم نہیں رکھتے تو اسکی وجہ مورخوں کا نہ ہونا ہے اور اگر اب بھی بلوچ تاریخ کے اندر کوئی Missing points رہ گئی ہے تو وہ عمومی طور پر سائنس کی اب تک کی محدودیت کی بنا پر ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں