وقت کا تقاضا اور بلوچ قومی تحریک – کوہ زاد بلوچ

322

وقت کا تقاضا اور بلوچ قومی تحریک

تحریر: کوہ زاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر ہم بلوچ قومی تحریک آذادی کو تجزیاتی نظر میں دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھائیں کہ یہ تحریک ستر سالوں سے مختلف مراحل کی انسرجینسیز میں سے موجودہ یعنی پانچواں انسرجینسی کہاں اور کس حالت میں کھڑا ہے تو جواب مختلف لوگوں سے مختلف انداز میں ملتی نظر آرہی ہے۔ بلوچوں میں ایک طبقہ جو تحریک کے حامی اور جڑے ہوئے ساتھی ہیں وہ بولان میں چار سے پانچ حملوں کو لے کر شاید ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں رہ کر تحریک کو ایک کامیاب راستے پر گامزن دیکھ یا سمجھ رہے ہیں، جبکہ اس کے برعکس، دوسرے مخالف عناصر مختلف پروپیگنڈے اور حربے استعمال کر کے تحریک کو کاونٹر اور کمزور کرنے کی کوشش میں لگتے نظرآتے رہے ہیں۔ اس کے بارے میں عام لوگوں کی اپنی انفرادی تجزیے کے مطابق تبصرے ہونگے کہ تحریک کتنا کامیاب اور کتنا ناکام ہے، لیکن، سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریک اصل میں، حقیقی طور پر کہاں کھڑی ہے؟ اس کی اصل و حقیقی پوزیشن کیا ہے؟

غالبا، بلوچستان کا ہر ذی شعور و طبقہ علم و فکر کے لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال جو پوری دنیا کے توجہ کا مرکز بن چکا ہے اس وقت، سے نہ صرف بلوچ قومی تحریک آذادی پر بلکہ افغانستان میں بلوچ مہاجرین پر بھی بہت ہی ناگوار اور منفی اثرات پڑنے والا ہے، تو ان حالات میں چونکہ ہمیں بلوچ قومی تحریک کی طرف سے کسی کے ساتھ بھی سیاسی اور سفارتی حکمت عملی نظر نہیں آتا اور نہ ہی کبھی آئی ہے، جو صرف عسکری صورت اور طریقے پر انحصار کرتا آرہا ہے، ہم بلوچ قومی تحریک کو صرف چند عسکری کاروائیوں کے بدولت کامیابی کے زمرے میں سمجھیں یا قریب مستقبل میں بلوچ قومی تحریک پر ممکنہ ناگزیر منفی اثرات کے متعلق نہ سوچتے یا ادراک رکھتے ہوئے حکمت عملی نہ بنانے یا منصوبہ بندی نہ کرنے پر ناکام سمجھیں؟ کیونکہ، ستر سالوں سے اب تک بلوچ قومی تحریک آذادی نہ صرف ایک عسکری طاقت بننے میں کامیاب نظر آتا ہے اور نہ ہی سیاسی سفارتی تعلقات بنانے میں۔ اگر ہم دشمن کے چند چھوٹے چوکیوں پر عسکری طور پر حملہ بولنے یا قبضہ کرنے کو اپنی عسکری طاقت میں کامیابی سمجھتے ہیں تو یہ ہماری بھول، غلط فہمی اور ضرورت سے زیادہ خوش فہمی ہے۔

اگر ماضی میں بلوچوں کو درپیش حالات پر نظر دوڑائی جائے تو پہلے بھی انہیں موجودہ صورتحال جیسی حالات کا سامنا ہوا ہے جن کے اثرات نے نہ صرف بلوچ مہاجرین کو واپس آنے پر مجبور کیے تھے بلکہ بلوچ قومی تحریک کے خاتمے یا انتہائی کمزور کرنے کا سبب بھی بنی تھیں۔ اگر ہم سوچ رہے ہیں کہ اس وقت بلوچ قومی تحریک اتنی مضبوط نہیں تھی جبکہ اس وقت کے مقابلے میں اب کافی زیادہ مضبوط اور منظم ہے، تو ہم یہ بھی دیکھیں کہ اس وقت بلوچ مخالف یا دشمن عناصر کون اور کس پوزیشن میں تھے اور موجودہ مخالف اور دشمن کتنی برق، مکار، اور حکمت عملی اور سازشوں سے لیس ہے۔ اس بات کی وضاحت کہ دشمن پاکستان بلوچ قومی تحریک کے خلاف کتنی چالاکی، مکاری اور اپنی استعماری عزائم اور سازشوں میں سرگرم ہے ضروری نہیں، کیونکہ پاکستان کی مکروہ چہرے سے زی شعور بلوچ پہلے سے ہی واقف ہونگے۔ تو ان حالات میں آیا بلوچ قومی تحریکوں کے قیادت سمیت ان تمام ذی شعور بلوچ لوگ اب بھی اپنے ماضی کے حکمت عملیوں، منصوبوں یا طریقوں کے مطابق چلتے رہیں گے یا کہ ہر بار کی موجودہ صورتحال کے مطابق بلوچ کاز جس طریقے و راستے کا تقاضا کرتا رہے گا اس پہ عمل پیرا ہونگے؟

کسی نے خوب کہا ہے کہ “جنگ جامد اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ حالات کے مطابق فنی اور تخلیقی حکمت عملیاں اختیار کرکے لڑی جانی چاہیے۔” اس کہنے پہ میں بہت متاثر ہو کر اتفاق کرتا ہوں، کیونکہ اس سے انکار نہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ویسے ویسے ان اوقات کے موجودہ صورتحال کے مطابق اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک آذادی کو موجودہ صورتحال میں کس طریقہ کار یا حکمت عملی کا تقاضا ہے؟ صرف موجودہ صورتحال میں نہیں بلکہ گذشتہ مراحل میں بھی تحریک کو درپیش ناسازگار حالات میں کونسے طریقے اور حکمت عملی کے تقاضے رہی ہیں جن سے بلوچ قوم، خاص طور پر مذکورہ تحریک سے جڑے اشخاص محصور یا غافل رہ کر حالات کو تحریک کیلئے یا مقصد کو عنقریب کرنے کیلئے سازگار بنانے میں ناکام رہے ہیں؟

رابرٹ گرین “33 جنگی حکمت عملیاں” میں لکھتا ہے کہ “خود کو نئی صورتحال کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیں۔ ہمارا حال سے نہ جڑا ہونا ہمیں راستہ اور منزل سے دور کردیتا ہے۔ اپنے دماغ کو مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق ڈھالنے سے ہمارا ردعمل حقیقی اور مناسب ہوتا ہے”۔ اب اگر ہم یہ کہہ دیں کہ چلو ٹھیک قوم اور تحریک کے کردار اور کارنامے بلوچ قومی مقصد کے ماضی کے تقاضوں کو پورا نہیں کرپائے تھے لیکن، آیا اب کی بار بھی یعنی کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے اس پورے خطے میں بدلتی ہوئی حالات اور اثرات جو خاص طور پر بلوچ قوم کیلئے ناگوار اور ناسازگار نظر آتے ہیں بلوچ قوم اور تحریک ماضی کی طرح ان سے نمٹنے میں ناکام ہونگے؟ یا اپنے حقیقی حالت و پوزیشن، بساط و استطاعت اور اپنے ماضی کی غفلت اور کمزوریوں کو زیر نظر رکھ کر خود کو حال میں ڈھالتے ہوئے قومی مقصد کے موجودہ یا ممکنہ حالات کے مطابق تقاضے پورا کرنے کے بارے میں تیار و آمادہ ہونگے؟

چونکہ، بلوچ قومی جدوجہد و جنگ جو یقینا قومی آذادی کیلئے ہے مقصد کے حصول تک ایک لامتناہی شکل اختیار کر چکا ہے جس سے اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کی انکار ممکن نہیں لیکن، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس تحریک کو یوں ہی کبھی کمزور پڑ جانی ہے جب بھی کوئی ناسازگار حالات اسے درپیش ہوتی ہیں تو کبھی اپنے عروج پر ہونا ہوتی ہے جب حالات سازگار ہوتے ہیں؟ اور اگر ہم کہیں کہ اس کو اپنے توازن میں رہنا چاہیے، تو بھی صرف توازن میں کیوں اور کب تک؟ پانچویں انسرجینسی کو دو دہائی ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک جب بلوچ اور بلوچ قومی تحریک کو پھر سے ناسازگار اور ضرر رساں حالات و صورتحال درپیش ہونے جا رہا ہے تو شدید خدشہ محسوس کیوں ہورہا ہے؟

ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک ہم ایک طاقت نہیں ہیں۔ جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کے قیادت اور لیڈرز نے نہ کوئی موثر سفارتکاری انجام دی ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر صحیح نمائندگی کی ہے جس سے عالمی برادری یا انسان دوست ممالک اور تنظیمیں بلوچ مسئلہ یا کاز کے متعلق بلوچ کے حق میں سنجیدگی سے اقدامات لیں۔ اس کے علاوہ، ہم گراونڈ میں بھی ایک عسکری طاقت بننے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں، کیونکہ اگر کسی تحریک یا تنظیم کی اپنے مقصد کیلئے کسی کے ساتھ اچھی سفارتکاری یا سیاسی امور نہ ہوں تو وہ خود کو منوانے کےلئے کم از کم اپنے گراونڈ میں ایک عسکری طاقت بن کے دکھاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک ہم دونوں صورتوں میں ناکام کیوں ہیں؟ سفارتکاری اور سیاسی امور میں بھی اور عسکری طاقت بننے میں بھی۔ غالبا، بعض لوگ یہی سوچ رہے ہونگے کہ ہم چوکیاں قبضہ کرتے ہیں تو ہم ایک عسکری طاقت ہیں لیکن نہیں، یہ ایک بچکانہ سوچ ہے۔ اکیسویں صدی میں اور خاص طور پر موجودہ صورتحال کے مطابق ایک بہت ہی تیز، شاطر، مکار اور چال باز دشمن اور ناسازگار حالات سے نمٹنے کےلئے بلوچ قومی تحریک وہ جنگی طریقے اور حکمت عملی جو بلوچ مزاحمت کار اپناتا آرہے ہیں اس سے کئی اعلی بہتر اور موثر حکمت عملیوں اور قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔

طالبان، جس کو ریاست پاکستان اپنے انگلیوں سے نچاتی آرہی ہے۔ جن میں اب بہت ہی کم سیاسی صلاحیت آچکا ہے، اس سے پہلے وہ سر سے پاؤں تک یعنی کہ سب کے سب جاہل اور غیر سیاسی تھے لیکن، ان کی طاقت کا مثال ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے، جنہوں نے امریکہ جیسے سب سے طاقتور ملک کو انخلا کرنے پر مجبور کیا۔ اس کی صرف ایک ہے وجہ ہے، جو میری اس پوری بحث کا حقیقی موضوع ہے۔ اور وہ ہے ایک عظیم و اعلی ہتھیار طریقہ طفیل یا حکمت عملی جو کسی تحریک، تنظیم یا ٹیم و گروہ کو ایک طاقت بناتا ہے۔ اس کو کسی بھی مشکل اور ناسازگار حالات میں کمزور پڑنے نہیں دیتا ہے۔ دشمن و مخالف کتنی ہی چالاک اور شاطر کیوں نہ ہو اس کی نیندیں حرام کرتا ہے۔ نہ صرف خود ایک عظیم طاقت بناتے ہوئے دنیا کےلئے خود کو منوانے میں جلد ہی کار آمد ہوتا ہے بلکہ دشمن کی شکست اور مقصد کے حصول کو کم عرصے میں یقینی بناتا ہے۔ جیسے کہ طالبان نے اس ہتھیار سے کر دکھایا۔ انہوں نے امریکہ جیسی طاقت کو اپنی اس ہتھیار یا فلسفیانہ حکمت عملی سے نکلنے پر مجبور کیا۔ جی ہاں! وہ ہتھیار، طریقہ یا حکمت عملی فدائی (Self-sacrifice) طریقہ کار ہے، جو ایک فکر و نظریہ ہے، ایک فلسفیانہ سوچ ہے۔

اسی طرح، بلوچ قومی جنگ یا قومی کاز بہت پہلے سے اس طریقہ کار و حکمت عملی کا تقاضا کرتا آرہا لیکن، شاید بہت ہی کم بلوچ شخصیات نے اس مقدم کا ادراک کرکے اس عظیم قدم کےلئے تیار ہوئے اور اپنی جانے قربان کیں۔ آج اگر طالبان ایک عسکری طاقت ہیں، یا ان سے ان کی عسکری طاقت کی بدولت عالمی طاقتیں ان سے مذاکرات کرنے، سفارتکاری کرنے، سیاسی تعلقات و امور بنانے اور کام کرنے کی حکمت عملی اور منصوبے بنا رہے ہیں تو اس کی وجہ طالبان کی ایک طاقت ہونا ہے اور وہ طاقت بنیادی طور پر ان کی فدائین کی بدولت قائم ہوئی ہے۔

کچھ سال پہلے شہید جنرل اسلم جان نے کہا تھا کہ “ہماری بقاء ہھتیار اٹھانے میں ہے، جنگ کو منظم کرکے ہم اپنے لوگوں اور سرزمین کا دفاع کرسکیں گے”۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو گیا تھا کہ ہماری جنگ کا بدلتی صورتحال کے مطابق مقدم فدائی طریقہ کار بھی ہے، اسی لیے اس نے بلوچ قومی تحریک کا مقدم اور وقت کا تقاضا پورا کرنے کیلئے اس طریقہ کار و حکمت عملی کے بارے میں بلوچ قوم کو یقین دلانے کیلئے اپنے لخت جگر بیٹے کو اس عظیم فلسفیانہ و نظریاتی راہ پہ قربان کیا۔ کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ اب تحریک کو مضبوط اور طاقتور بنانے اور مقصد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے یہ عمل وقت اور حالات کے

مطابق قومی تحریک کی ضرورت ہے اور اس فلسفہ و نظریہ کو بلوچ قوم میں زندہ رکھنے کےلیے اپنے ہی بیٹے کو قربان کرکے بلوچ کو احساس دلایا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی بلوچوں میں یہ فلسفہ و نظریہ یا حکمت عملی زندہ رہی ہے۔ شاید ان کے اوقات میں بھی بلوچ قومی تحریک یا اس کی مقصد کے حصول کا تقاضا یہی رہی ہوگی۔ بیسویں صدی کے آخری میں فدائین مجید بلوچ کا فدائی کرنے کا قدم اٹھانا اور 2010 میں فدائین درویش بلوچ کا دشمن پر ٹوٹ پڑنا، متعلقہ سوچ و فلسفہ پر اور بھی بلوچوں نے اقدام اٹھائے ہونگے جو اس وقت ذرائع مواصلات اور سماجی رابطے کے ذرائع کی عدم موجودگی یا بہت ہی کم ہونے کی وجہ سے ان کے نام، عظیم قربانیاں اور کارنامے آج تاریخ کے اوراق میں اہم صفحوں میں نہیں ملتی ہیں لیکن ان کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی جو ان کے روح کے سکون اور اطمینان کا سبب بنیں گی۔

اسی طرح، یہی طریقہ کار یعنی کہ فدائی حکمت عملی بلوچ قومی کاز یا تحریک کو اپنی کامیابی یقینی بنانے کیلئے آج پھر ضرورت و مقدم پڑ رہی ہے۔ اور بہت پہلے سے پڑتی آئی ہے، لیکن اس کی ارتکاب یا اس کےلئے آمادگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے، اور غالبا یہی وجہ ہے کہ نہ صرف مقصد کی حصول یا تکمیل میں تاخیر و سستی ہوتی آئی ہے بلکہ جب بھی ناسازگار اور کشیدہ حالات کا سامنا پڑتے ہی مذکورہ تحریک کی عامل (ایگزیکٹو) افراتفری و الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور تحریک کے ڈھانچے کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اگر آج بلوچ یا بلوچ قومی تحریک کسی موثر حکمت عملی کی بدولت ایک عسکری طاقت ہوتی تو بلوچ کو بھی طالبان یا دوسرے مثالی گروہ یا تحریک کی طرح نہ صرف دشمن کی طرف سے بلکہ عالمی سطح پر سنا جاتا یا انہوں نے ان سے اپنی مطالبات اور مقاصد منوایا ہوتا۔ کیونکہ، جیسے کہ میں پہلے بھی تذکرہ کر چکا ہوں کہ بلوچ قوم یا بلوچ قومی تحریک اب تک کوئی ایسی سفارتکاری عالمی سطح پر انجام دینے میں کامیاب نہیں نظر آتا جس سے بلوچ کاز کو لے کر مثبت امکانات ہوں یا قومی مقصد کی تکمیل ممکن ہو۔ اس کی ایک نمایاں دلیل یہ ہے کہ اب تک تو بلوچ لاپتہ افراد (Baloch Missing Persons) کے متعلق عالمی سطح پر کوئی مثبت اور سازگار قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جو عملی طور پر بلوچ قوم کیلئے موثر اور مفید ثابت ہوا ہو۔ جو اپنے مفادات سے ہٹ کر لیا گیا ہو۔

در اصل، متعلقہ مقصد کی حصول آج کی دنیا میں دو طریقہ کار سے ممکن ہے۔ پہلی، موثر انداز و طریقے سے اپنی نمائندگی کرکے ایک موثر اور بہترین سفارتکاری اور سیاسی تعلقات و امور سے۔ دوسری، ایک عسکری قوت بن کر دشمن کو عسکری طاقت سے شکست دینے سے۔ اب چونکہ پہلا طریقہ کار کے بارے میں بلوچ قومی تحریک شروع دن سے مفقود اور بحران کا شکار رہی ہے مذکورہ تحریک صرف عسکری طریقہ کار پر انحصار کرتا آرہا ہے، لیکن اس میں بھی کئی بار بدترین بحران اور ناکامی کا سامنا پڑا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ ہے بہترین اور موثر جنگی و عسکری حکمت عملی اختیار کرنے میں غفلت، غیر مخلصی اور تاخیر ہے۔

جی ہاں، پانچ انسرجینسیز! یہ نہیں کہ میں صرف ایک یا پانچویں انسرجینسی کی بات کررہا ہوں۔ ہر انسرجینسی میں اپنے مقصد کی تکمیل کی طرف کردار اور کارناموں میں ناکامی رہی ہے۔ یاد رکھیں! ہم ایک مقصد (بلوچ قومی آذادی) کےلئے جدوجہد میں عمل پیرا ہیں اور ہمیں وہ مقصد حاصل کرنا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف اپنی (شاید) کمزور اور غیر موثر طریقہ کار اور حکمت عملیوں سے اس جدوجہد و جنگ کو صدیوں تک جاری رکھنا ہے۔ تاہم، مقصد حاصل کرنے کیلئے یقینا بلوچ قوم اور قومی تحریک کو ہر وقت کی صورتحال کے تقاضوں کے مطابق فلسفہ و نظریہ اور طریقہ کار و حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

لہذا، ان تمام منطق کے تناظر میں بلوچ قومی تحریک یا کاز کی وقت اور حالات کے مطابق بہترین اور موثر، بلکہ آخری اور واحد اختیار، طریقہ کار، حکمت عملی یا ہتھیار فدائی کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ فدائی کاروائی اور حملے مذکورہ تحریک کا مقدم و ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلوچ قوم یا بلوچ قومی تحریک اس واحد اختیار کو اپنا کر دشمن کی کمر توڑتے ہوئے اس کی شکست کو یقینی بنا کر اپنی مقصد و منزل حاصل کرینگے یا ماضی اور جاری غیر موثر اور فرسودہ طریقہ کار اور حکمت عملیوں سے اس جدوجہد کو یوں ہی صدیوں تک جاری رکھتے ہوئے قومی مقصد کے حصول کو کبھی ممکنہ اور یقینی نہیں بنائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں