مذاکرات کا شوشہ کیوں؟ – افروز رند

340

مذاکرات کا شوشہ کیوں؟

تحریر: افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں پاکستان کے وزیر اعظم نے گوادر کے دورے کے دوران اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بقول ان کے (ناراض ) بلوچوں سے بات چیت کا سوچ رہا ہے۔ ناراض کا لفظ پاکستانی لیڈر اسلئیے استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ کچھ محرومیوں اور شکایتوں کی وجہ سے بلوچ ناراض ہیں ورنہ ان کی کوئی سیاسی کلچرل اور جغرافیائی یا قومیت کا مسئلہ وجود ہی نہیں رکھتا۔
زرا بلوچستان کے مسئلے کو تاریخی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں-

1947 اگست ء میں برطانوی تسلط کے اختتام کے بعد قلات ایک آزاد و خود مختار ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا، احمد یار خان نے15 اگست 1947 کو ایک عوامی جلسے میں آزادی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا مجھے بلوچی میں خطاب کرتے ہوئے فخر محسوس ہورہاہے۔ جب کہ ملکی آئیں ‘ مجلس وزرا اور مقننہ وجود میں لائے گئے اور پارلیمانی انتخاب بھی ہوئے۔

بلوچ قوم ھزاروں سالوں سے بلوچستان میں آباد ہیں اگر چہ اپنوں کی بیگانگی ہو یا اغیار کی چالاکی بلوچ زیادہ تر بیرونی سازشوں کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں ۔

خطے میں توازن طاقت کو آنے والے وقتوں میں تبدیل کرنے کیلئے انگریز جناح کو تقسیم ہند کیلئے جیسے تیار کررہے تھے تو اسی وقت سادہ لوح بلوچ خان احمد یار خان جناح کو انعام و کرام سے نواز رہاتھا کہ وہ مسلمان بھائی ہے اور انگریزون کے ساتھ ان کی بہتر وکالت کرسکتا ہے ‘ شومئی قسمت جناح نے بے وفائی کی اور خان اپنی فریاد بلوچستان کی ایوان زیریں اور بالا میں لے آئے جسے دونوں ایوانوں میں بیٹھے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے رہبرون سمیت علماء نے سختی سے رد کرتے ہوئے خان کو مشورہ دیا کہ وہ ڈٹ جائیں۔

مسٹر وائی فیل کی صورت میں خان صاحب کے حوصلوں کا صفینہ بھی غرق ہورہاتھا اور جناح نے وعدہ خلافی کو طول دیتے ہوئے بلوچستان کے باقی ریاست ‘ مکران ‘ خاران اور لسبیلہ کو پاکستان میں ضم کرتے ہوئے ریاست قلات کے انتظام کا فیصلہ وزارت داخلہ کے سپرد کردیا۔ خان کو پیغام دیا کہ جنآح ان سے بات نہیں کرے گا اور پھر فیصلہ ریاست پاکستان کے وردی والوں نے کیا بلوچوں کی حکومت کو روندتے ہوئے 28 مارچ 1948 میں قلات پر قابض ہوئے اور خان سے جبرا دستخط کروائی کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے ہیں ۔

16 مئی 1948 کو
ِاسی قبضہ کے خلاف پرنس عبد الکریم پہاڈوں پر چلے گئے (جسے پہلا بلوچ بغاوت کے نام سے یاد کیا جاتاہے)اور بعد میں اس کے ساتھ مذاکرات کے نام پہ جوکچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ پرنس عبد الکریم کو مذاکرات کے نام پر بلاکر گرفتار کرلیا گیا اور کہا گیا کہ پرنس افغانوں کی مدد سے شورش برپا کررہے تھے اس لئے فوج نے ان پر حملہ کرکے اسے 142 ساتھیون سمیت گرفتار کرلیا ہے اور پھر 17 نومبر 1948 کو پرنس کو دس سال کی بامشقت سزا اور 5000 ھزار کا جرمانہ کیا گیا۔ حالانکہ پرنس کریم مسٹر D.y fell اور دیگر با اختیار لوگوں کی یقیں دھانی اور بات چیت کے بعد ہربوئی کے مقام پر آئے تھے ۔

جب اکتوبر 1954 کو خان احمد یار خان کو پاکستانی فوج نے دوبارہ حراست میں لیکر پنجاب لیجاکر لاکپ کیا تو اسی پیریڈ میں بلوچ بزرگ قوم پرست رہنما بابو نوروز زرکزئی نے ریاست کے خلاف بغاوت کیا اور پہاڑوں پر چلے گئے یہ ایک موثر اور مربوط بغاوت تھی جسے (دوسری بغاوت یا جنگ آزادی کے نام یاد کیا جاتاہے ) جب بابو شہید کو ریاستی فوج شکست دینے میں ناکام ہوئی تو انہوں نے اللہ اکبر پر مبنی اپنے اسلامی بھائی چارے کا استعمال کیا ‘ قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا گیا کہ اگر بابو پہاڑوں سے واپس آکر بات کریں ہم ان کی تمام شرائط تسلیم کرینگے اور انہیں کوئی جانی یا مالی قومی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

جب بابو شہید یقین دہانی کے بعد بات چیت کیلئے آگئے پھر ان کو گرفتار کرکے کال کوٹری میں بند کردیا اور 15 جولائی 1960 کو بابو شہید کے جوان سال بچوں کو ان کے ساتھیوں سمیت غداری کے الزام میں تختہ دار پر لٹکادیا گیا اور بابو کو معمر ہونے کی وجہ سے عمر قید دی گئی اور 25 دسمبر 1965 کو دوران حراست بابو دنیائے فانی سے رخصت ہوکر امر ہوگئے ۔

جب کہ ستر کی دھائی میں بھٹو کے دور حکومت میں بڑے پیمانے پر بلوچوں کی قتل عام ہوئی اور لوگ لاپتہ ہونا شروع ہوگئے۔
ایک تخمینہ کے مطابق ستر اور اَسی کی دھائی یعنی تیسری اور چوتھی بغاوت کے دوران 30 ھزار سے زائد بلوچ شہید کردئے گئے ھزاروں لاپتہ کردئے گئے اور لاکھوں لوگ پناہ گزیں ہوکر قریبی ملکوں یا پاکستان کے دیگر صوبوں میں چلے گئے اور اپنے گھروں اور وطن سے بیدخل ھوگئے۔

عام طورپر کہا جاتاہے کہ نوئے کی دھائی شورش قدر کم تر تھی تاہم تاریخ پڑھنے سے پتہ چل جاتاہے کہ اس دوران نواب مری اور اس کے قریبی رفیق باقائدہ اسڈی سرکل لگا رہے تھے اور آنے والے وقتوں میں جدوجہد کو توانا اور مضبوط کرنے کی لونگ ٹرم پالیسی پر عمل پیرا تھے اور بارہا نواب مری ایک لیجنڈری قوم پرست لیڈر تھے ۔ اس دوران سازشی کیسوں میں نواب مری اور اس کے ساتھیوں کو پھنسایا بھی گیا اور وہ پابند سلال بھی رہے تاہم وہ جدوجہد سے دستبردار نہ ہوئے ۔

بلوچ جدوجہد میں نئی جدت اکیس ویں صدی کے شروع ہوتی ہی آنا شروع ہوگئی البتہ یہ تمام اس کاوش کی ثمر تھی جسے نواب مری اور اس کے رفقاء لگار رہے تھے دو ھزار کے بعد بلوچ جدوجہد کے منظم ہونے کی وجہ لوگوں کی شعوری شمولیت اور جزبہ کے ساتھ عقلی و دانش مندانہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے تحریک میں توانائی پیدا ہوگئ اور شہید غلام محمد ‘ شہید بالاچ مری جیسے اہم اور قابل فہم لیڈر اس کاروان کے رہبر بن گئے اگر یہ کہا جائے کہ بلوچ تحریک میں نواب بگٹی کے شہادت کے بعد تیزی آگئ تھی یہ غلط نہ ہوگا لیکن تحریک کی جڑیں پہلے عوام میں پیوست ہو چکے تھے اور بعد میں اللہ نظر اور بشیر زیب جیسے طالب علم بھی تحریک میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے طلبانے بڑے پیمانے پر تحریک کو جوائن کرنا شروع کیا جس میں شہید بانک کریمہ سمیت دیکر کئ طالب علم رہنما قابل زکر ہیں۔

جب زرداری کی حکومت قائم ہوئی تو کہا گیا کہ بلوچستان کے مسائل کی وجہ ڈکٹیٹر مشرف تھے اب تو پانی اور دودھ کی نہریں چلنا شروع ہونگی زرداری نے معافی تلافی کے بیان بھی دیئے اور آغاز حقوق بلوچستان نامی پیکج کا اعلان بھی کیا اور بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بلوچ لیڈروں کی اغواء شروع ہوئی اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں اور ویرانوں میں ناقابل پہچان صورت میں ملنا شروع ہوگئے بلوچ تحریک کے اہم رہبر غلام محمد کی لاش ساتھیوں سمیت مرگاپ سے ملی اور پھر مرگاپ میں لاشوں کی ملنے کا داستان بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل گئی جو کہ ہنوز جاری و ساری ہے ‘ طلبہ سیاست پر پابندی لگادی گئ طالب علم رہبر اغوا ہوئے کئی سیاسی ورکروں کی ڈریل کی گئی لاشیں مل گئیں بلوچستان عملا مقتل گاہ میں تبدیل ہوگیا لیکن یہ جبر آج بھی جدت اور زور وشور کے ساتھ جاری ہے البتہ ہمیشہ اس کی شکل میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔

خان صاحب سے استدعاہے کہ بلوچوں کی تاریخی حیثیت کو قبول کریں اور بلوچوں کو ان کے اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں