پاکستان میں متحرک تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی جانب سے انٹرویو میں کہا ہے کہ انکی جنگ پاکستان و اس کے سیکورٹی اداروں کے ساتھ جاری ہے۔
پہلی دفعہ امریکی ادارے سی این این کو انٹر ویو دیتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے کہا ہے کہ ہماری جنگ پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سے ہیں۔ افغان طالبان کی کامیابی پوری امت مسلمہ کی کامیابی ہے ہمارے تعلقات بھائی چارے دوستی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں۔
نور ولی محسود کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مسلمان کی کامیابی دوسرے مسلمانوں کی کامیابی میں مدد فراہم کرتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں نور ولی محسود کا کہنا تھا کہ یہ وقت ہی واضح کرے گا کہ افغان طالبان کی کامیابی کا ہمیں کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں تاہم ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کا کنٹرول حاصل کرکے اسے آزاد کروائیں گے۔
نور ولی محسود 2018 میں ملا فضل اللہ کے مرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنا تھا اور اس کا یہ پہلا انٹرویو ہے جسے امریکی ادارے سی این این نے نشر کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجود ہیں جو پاکستان کے لئے بڑا چیلنج ثابت ہونگے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان افغان سرحد پر موجود یہ عسکریت پسند نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ حکومت کے بھی خلاف ہیں ‘اختلافات کے باوجود‘ ان جنگجوؤں کے افغان طالبان سے بھی ماضی جیسے روابط برقرار ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تقریباً چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، دسمبر 2019 اور اگست 2020 کے عرصے میں افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بعض گروپوں کے درمیان دوبارہ اتحاد ہوا۔ اس میں شہر یار محسود گروپ، جماعت الاحرار، امجد فاروقی گروپ اور عثمان سیف اللہ گروپ (جو پہلے لشکر جھنگوی کے نام سے مشہور تھا) شامل تھے جبکہ القاعدہ نے مبینہ طورپر ان گروپوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا۔
اس رپورٹ میں چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سینکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔