تاریکی میں ڈوبتا گوادر
تحریر: زبیر بولانی
دی بلوچستان پوسٹ
گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے یعنی ‘گوات’ ہوا اور ‘در’ یعنی دروازہ (ہوا کا دروازہ)۔ گوادر کی اہمیت آج کے بھی ویسی ہے جیسے صدیوں پرانی حال تھی۔ گوادر جس طرح آج ایک اہم مرکزی تجارتی بندرگاہ ہے اسی طرح صدیوں پہلے بھی ایک اہم مرکزی تجارتی بندرگاہ تھا ۔ گوادر کو حمل اور جیئند کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ پرتگیزیوں نے بھی اس وقت اسکی اہمیت کو بھانپتے ہوئے یہاں پر اپنے قدم جمانے کی ناکام کوشش کی تھی جو حمل کلمتی بلوچ کی مزاحمت سے یہاں پر قدم جمانے سے قاصر رہے اور واپسی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
آج گوادر کے چاروں اطراف میں باڑ لگا کر سیف سٹی کے نام پر ایک چھاونی میں بدلا جا رہا ہے ترقی کے نام پر مظلوم و محکوم عوام کے گھروں کو مسمار کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں کے بنیادی باشندوں کو اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔آج عوام کو بھوک اور پیاس سے قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے
ماہی گیروں کی کشتیاں جلائی جارہی ہیں۔ بجائے گوادر میں روشنیاں پھیلانے کے مزید گوادر کو تاریکی کے جال میں دھنسایا جارہا ہے اور ہماری بلوچ قوم صرف پاکستانی میڈیا کے دوغلا پن اور جھوٹ سن سن کر خوشی سے پھولیں نہیں سما رہے۔
سی پیک سے بلوچستان کو صرف ایک پاور پروجیکٹ ملا ہے حب میں جو ابھی تک نامکمل ہے اگر وہ بن بھی گیا تو حبکو کی پوری توانائی کراچی کو منتقل کی جائے گی۔ جس طرح ماضی قریب میں اوچ پاور پلانٹ کی توانائی کیساتھ کیا گیا۔ روڈ پروجیکٹس میں نوکنڈی سے ماشکیل جسے بعد میں ایم 8 موٹروے سے جواڑا جائے گا اور پنجاب تک لے جایا جائے گا اسی طرح بیسمہ سے خضدار جسے پھر سکھر موٹروے سے جوڑا جائے گا ۔ ان چار سالوں میں صرف یہ تین پروجیکٹس ہیں اور یہ بھی ابھی تک نامکمل ہیں۔ موجودہ حالات میں ہونا تو یہ چائیے اٹھارویں ترمیم کے بعد ان سب کا اختیارات صوبوں کو باعزت منتقل کیا جاتا لیکن سی پیک کا چیئرمین بھی ایک فوجی جرنیل کو رکھا گیا اور ان سب کے باوجود ابھی بھی بلوچستان کے کسی بھی پارٹی کے کسی بھی ممبر کو میٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا عام عوام تو دور کی بات ہے۔ گوادر زندگی کے بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہے جس میں گیس، بجلی، پانی، مفت صحت حتی کے تعلیمی نظام کی بھی ناقص صورتحال ہے ان سب کو نظر انداز کرکے گوادر میں اسٹیڈیم بنانا وہ بھی صرف اپنے چہیتوں(چینی اور پنجابی) کیلئے گوادر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نیو اور اولڈ ٹاون میں یہ احساس دلانا کہ تم غلام ہو ۔نئی تعمیر ہونے والی بندرگاہ تو ایک ریڈ زون کا منظر پیش کرتی ہے جہاں اجازت نامے کے بغیر منظور نظر شخص داخل نہیں ہو سکتے۔
گوادر کی حالت زار بھی بالکل اسی طرح ہوگی جس طرح آج سیندک ریکوڈک چاغی(راسکوہ) کے عوام کا ہے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے عوام کا ہے جو آج بھی سوئی سے نکلنے والی گیس کو استعمال کرنے سے محروم ہیں ۔آج بھی چہتر راسکوہ میں کینسر کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے آج بھی سیندک اور ریکوڈک کے لوگ جھونپڑیوں میں بھوک اور افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
آج بھی بلوچ قوم کیساتھ اسی طرح برتاو سلوک کیا جارہا ہے جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر کیساتھ کیاتھا لیکن پھر بھی بلوچ قوم یہ سب دیکھنے سوچنے سمجھنے کے باوجود ایک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مستقبل قریب میں یہ خاموشی ایک بڑے سانحے کا سبب نا ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں