ایک مُزاحِمت کار، ایک کامریڈ شہید رحمت شاہین بلوچ – پُلھین بلوچ

385

ایک مُزاحِمت کار، ایک کامریڈ شہید رحمت شاہین بلوچ

تحریر: پُلھین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دُنیا کے مظلوم و محکوم قوموں کو مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ظالم اور سامراج کے آگے سر کبھی نہیں جھکایا، بلکہ اپنے سرزمین کی آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتے رہے۔

دُنیا نے بہت سے ایسے کامریڈز پیدا کیے جنہیں آج تک انقلابی اپنے آئیڈیل مانتے ہیں۔ ہندوستان سے کامریڈ بھگت سنگھ اپنے کامریڈز کے ساتھ مل کر سامراج کےلیے دردِسر بن گئے۔اسی طرح کیوبا میں فیڈل کاسترو اور کامریڈچےگویرا، چین میں کامریڈ ماوزۓ اور جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا انقلابیوں کےلیے پیرومُرشد بن گئے۔

دُنیا کے دیگر خطوں کی طرح میرا لُمہِ وطن ، میرا مکہ، میرا حانُل، بہادروں کی سرزمین بلوچستان نے بھی ایسے کامریڈز، ایسے مُزاحمت کار پیدا کیے کہ میں ان کو بلوچستان کا بھگت اور ہوچی منہ قرار دیتا ہوں ۔ جنہوں نے سامراج کے لیے اپنے سرزمین کو جہنم بناکر اس کا جینا حرام کردیا اور آج تک کررہے ہیں۔

جب پُرتگیزی قبضہ گیروں نے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ بحرِبلوچ کے ساحل پر قدم رکھا تو کامریڈ حمل جیئند جوکہ ایک آزادی پسند اور ایک مزاحمت کار تھا ،تو اپنے سرزمین پر اس قبضہ گیر کو پسند نہیں کیا اور اس کے خلاف مزاحمت کا اعلان کردیا۔

اس کے بعد جب سکندر اعظم دنیا کو فتح کرنے نکلا ، جب وہ بلوچستان میں داخل ہوا تو سخت موسم اور پُرکھٹن راستوں کو طے کرتے ھوۓ بڑے نقصان کے بعد آخر کار ایران پہنچ گیا۔کیونکہ بلوچستان خود ایک مُزاحمت کار ہے۔اس کا ہر چیز مزاحمت کرتا ہے۔

بقولِ کامریڈ شہید سنگت ثناء بلوچ کہ”میرے سرزمین کا نوجوان تو مزاحمت کرتا ہے لیکن اس دھرتی کا موسم بھی دشمن کے ساتھ مزاحمت کرتا ھے”۔

انگریز خود اپنے کتابوں میں لکھتا ہیکہ جب وہ سندھ سے بلوچستان میں داخل ہوۓ تو سخت گرمی سے اُن کے سینکڑوں فوجی مرے اور جب درہِ بولان سے کولپور اور دشت میں داخل ہوئے تو سخت سردی اور برفباری سے ان کے ہزاروں فوجی مرے۔

انگریز کو جتنی مزاحمت کا سامنا بلوچستان میں کرنا پڑا شاہد کسی خطے میں کرنا پڑا ہو۔

مری بلوچوں کا مزاحمت جہاں ماوند میں آج تک انگریز کی پڑی توپیں بلوچوں کے مزاحمت کا گواہی دے رہے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دیگر علاقوں جیسے کہ مکران میں گوگ پروش کا جنگ جہاں پر انگریز آفسر نے بلوچ مزاحمت کاروں کو سلامی دیاتھا۔

بلوچ مزاحمت کرتا رہا ہر آنے والے بیرونی حملہ آور کے خلاف اور آج تک مزاحمت کررہاھے۔

انگریز کے بعد پاکستان جیسے غیرمہذب قبضہ گیر کے خلاف بلوچ نے ایک بار پھر مزاحمت شروع کردیا، کیونکہ وہ غلام رہنے سے زیادہ آذاد رہنا پسند کرتے ہیں، اور آزادی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔

پاکستان جیسے قابض کے خلاف پرنس آغا عبدالکریم نےمزاحمت کا عَلم بلند کیا۔اس کے بعد پیر مرد بابو نوروز نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا کر مزاحمت کو جاری رکھا۔

امامِ انقلاب بابا خیربخش مری سے لیکر ڈاڈاِ بلوچ نواب اکبر خان بگٹی تک، میر سفر خان سے لیکر شیہدِانقلاب میر بالاچ خان تک، واجہ غلام محمد سے لیکر ڈاکٹر منان جان تک، شہید اُستاد اسلم سے لیکر لُمہِ وطن شہید بانُک کریمہ تک اور شہید سنگت شہدادجان سے لیکر شہید سنگت آفتاب جان (وشین) تک مزاحمت کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری وساری ہے جو انشاءاللہ آزاد بلوچستان کے حصول تک جاری رہےگا۔

انہی مزاحمت کاروں میں ایک نام سنگت کامریڈ رحمت شاہین کا بھی ہے ، جس نے اپنے شہیدوں کی نقشِ قدم پر چل کر مزاحمت کو اپنا لیا ۔

سنگت کامریڈ رحمت شاہین بولان کے بالائئ سرے پر موجود خلقِ کامریڈ میرعبدالنبی بنگلزئی (اسپلنجی)میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول سے حاصل کرنے کے بعد گھر والوں کا کچھی کے علاقے بھاگ ناڑی ہجرت کی وجہ سے مزید تعلیم اُدھر سے حاصل کیا۔

میٹرک مکمل کرنے کے بعد شال چلاگیا اور مزید تعلیم جاری رکھا۔ کالج ہی کے زمانے میں بلوچ قومی تحریک سے قربت رکھتا تھا۔اس دوران سنگت BSO میں شامل ہوا۔

جب واجہ ڈاکٹر اللا نزر نے بی ایس او کو پارلیمانی سیاست کے چنگل سے آزادکرکے ایک آذاد و خودمختیار گل BSO AZAD کا نام دیا تو کامریڈ رحمت شاہین جوکہ پہلے سے ہی ڈاکٹر کے فکر سے متاثر تھا تو اس کے کاروان میں شامل ہوا۔

تعلیم اور سیاست کے ساتھ ساتھ سنگت نے صحافت اور شاعری میں بھی اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔سنگت پُختہ نظریہ کا مالک تھا۔وہ ہر کام نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتاتھا۔وہ قوم کا درد لیے ہر کوہ و دمن میں موجود ہر گدان پر جاکر لوگوں کو تحریک کے بارے میں آگاہی دیتاتھا۔شاعری کی زبان میں وطن سے عشق و محبت کو قلم کے زریعے قوم تک پہنچاتاتھا۔

جب دشمن کو سنگت کے کاموں سے خوف محسوس ہونے لگا تو بولان کے علاقہ مچھ سے رات کے وقت سنگت کو اٹھاکر دشمن اپنے زندانوں میں بند کردیا۔جہاں پر مختلف قسم کے تشدد کے بعد تقریباً دو مہینے کے بعد رہا کیا گیا۔

اس بار سنگت پہلے سے زیادہ تنظیمی کاموں میں مگن ہوا اور دوستوں کو یکجا کیا ۔ اس بار وہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ وہ سیاسی مزاحمت سے ذیادہ مسلح مزاحمت کا درس دیا کرتا تھا کہ یہ دشمن صرف بندوق کی زبان سمجھتا تھا۔سنگت چونکہ پہلے ہی سے BLA کے دوستوں سے قربت رکھتا تھا۔اب ایک بار پھر نۓ عزم کے ساتھ بولان کو اپنا سنگر بنایا۔ وہ شہید اُستاد عبدالرسول جان کا انتہائی قریبی اور رازدار ساتھی تھا۔وہ شہید علی شیر کرد ،شہید کریم جان دہوار اور شہید جنرل اسلم جان کے ساتھیوں میں شمار ہوتاتھا ۔سینئر دوستوں سے قربت کی وجہ سے وہ بہت پُختہ ہوا تھا۔

میرا اس عظیم کامریڈ سے ملاقات شہید اُستاد عبدالرسول جان کے وتاخ اسپلنجی میں ہوا۔ چونکہ میں اس وقت عمر میں چھوٹا تھا، چیزوں کو کم سمجھتا تھا لیکن اس عظیم سنگت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔میں نے اس کو ایک بہادر مزاحمت کار کے روپ میں دیکھا۔وقت گزرتا گیا سنگت اپنے ہم خیال ساتھوں کے ساتھ مل کر ہر محاذ پر دشمن کو شکست دیتارہا۔سنگت شال،بولان اور کچھی میں تنظیمی کام سرانجام دیتا رہا۔

مارچ 2011 کو جب سنگت تنظیمی کام کے سلسلے میں کچھی سے بولان آرہا تھا تو ایک بار پھر آستین کے سانپوں نے ناپاک فوج کے ساتھ مل کر دوپاسی کراس ڈھاڈر سے سنگت کو شہید اُستاد عبدالرسول جان اور تین دوستوں سمیت اغوا کرلیا ۔ باقی دوستوں کو کچھ دنوں بعد چھوڑ دیا گیا لیکن سنگت کامریڈ رحمت اور اُستاد عبدالرسول جان کو دشمن اپنے زندان میں اذیت دیتا رہا۔

آخرکار اپریل 2011 کو سنگت کو دشمن نے شہید کرکے کے ہم سے جسمانی طور پر جُدا کردیا۔ شہید کے جسم پر تشدد کے بے حد نشانات تھے جوکہ دشمن کی بزدلی کو ظاہر کررہے تھے کہ وہ ایک نظریاتی شخص کو خرید نہ سکا۔

شہید کی جسد خاکی کو شہید شفیع جان قبرستان اسپلنجی میں سُپردِگُلزمین کردیاگیا۔

اس طرح ایک عاشقِ گُلزمین، ایک مزاحمت کار نے ایک تاریخ رقم کردی اور ان شہیدوں میں شامل ہوگۓ، جنہوں نے سامراج سے مزاحمت کی اور نۓ اُگنے والے ہر گواڑخ کو اپنے خون سے آبیار کرکے مزید قوت بخشی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں