کتاب ریویو : مظلوموں کی ترقی : مصنف : پاولو فریرے – تبصرہ : شیر خان بلوچ

790

کتاب ریویو : مظلوموں کی ترقی

مصنف۔ پاولو فریرے

تبصرہ : شیر خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج زیر نظر بک ریویو کتاب مظلوموں کی ترقی کا ہے جسے برازیلی مصنف اور ماہر تعلیم بالغاں پالوفرائرے نے رقمطراز کیا ہے۔ پاولوفریرے 1921 میں ریسائف میں پیدا ہوا جہاں اس کی تعلیمی فکر پہلی مرتبہ 1959 میں یونیورسٹی آف ریسائف میں مقالہ پیش کرتے ہوئے نمایاں ہوئی، بعد میں وہ اسی یونی ورسٹی میں تعلیمی فلاسفی اور تاریخ کے پروفیسر کے طور پر سامنے آئی۔ 1964 میں فوجی حکومت نے اس کو ستر دن تک جیل بھیج دیا اور ساتھ ہی اسے ملک بدر ہونے کا حکم دیا گیا۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جب کوئی انسان پڑھنے ،لکھنے اور سیکھنے کے عمل کے بعد ذاتی بیداری سے آشنا ہوتا ہے ، اپنے سماجی صورتحال کو تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے ، وہ معاشرے کو تبدیل کرنے کے عمل کی شروعات کرتا ہے۔ اسی طرح پاولوفریرے نے بھی اپنے معاشرے میں بہت کچھ ایسی چیزوں پر تنقید کرنا شروع کردیا جو مظلوموں کی ترقی کے راستہ پر رکاوٹ بن چکے تھے ۔ پاولوفریرے اس تصور پر ایمان رکھنے والے تھے کہ ہر انسان اپنا لفظ کہنے اور سماج کو نام دینے کے حق کو واپس لیتا ہے۔

پاولوفریرے نے تنقیدی بیداری کے کردار کا تجزیہ اور آزادی دلانے والے تعلیمی تجربے کوتربیتی کورسوں کا حصہ بنایا اس لیے اس نے ایسی بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن کے بدولت بہت سے ممالک اور سماج میں بہت تبدیلی بیدار ہوگئی ہے۔ انسان اپنی سچائی خود بناتے ہیں۔ فکر، تحقیق اور ٹھوس صورتحال نے “مظلوموں کی ترقی ” کو لکھنے میں مدد دی ہے۔ جب اس نے یہ دریافت کیا کہ وہ کتنا بدھوہے تو وہ تنقیدی ہونا شروع ہوگیا ۔ لیکن اس دریافت نے اسے نہ متعصب بنایا تھا اور نہ ہی اس نے اس دریافت میں کوئی تباہی محسوس کی تھی۔

پاولوفریرے مزید اس بات پر بحث کرتا ہے کہ فرقہ بندی ماورائی جھوٹ بناتی ہے، حقیقت کے متحرک ہونے کا ادراک نہیں کر پاتا حقیقت کو جھوٹی حقیقت میں تبدیل کرتی ہے اور بیگانگی پیدا کرتی ہے جبکہ انقلاب تنقیدی ہوتی ہے، ٹھوس حقیقت معروضی حقیقت کرنے کے لیے دلی وابستگی کا تقاضا کرتی ہے ۔

وہ لوگ جن کا تختہ الٹا گیا ہے وہ خود کو ایک نئی صورتحال میں پاتے ہیں بلکہ وہ خود دوسروں کے برابر پاتے ہیں مظلوم یہ سمجھتے ہیں کہ آزادی کے بغیر وہ سچے طور پر اس دنیا میں موجود نہیں ہوتے ہیں۔ اس کے اندر ایک نیا جذبہ ابھر کر سامنے پیش ہوتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے اپنے اندرونی جابروں کو اکھاڑ پھینکنے کی سوچتے ہیں ، اس کے ساتھ مکمل انسان بننے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور مختلف و منفرد راہوں کے لئے بطور متحرک انسان کا وجود پاتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمیشہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے آج وہ مظلوموں کے لیے ان کی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے کے لیے جبر کی صورتحال کا ادراک ایسی حقیقت کے طور پر کرتے ہیں جو مکمل نہیں ہے اور نہ ہی جس میں باہر جانے کا راستہ ہوتا بلکہ یہ محدود صورتحال ہے جسے وہ تبدیل کرتے ہیں ۔ لیکن آزادی کی جدوجہد شروع کرنے کے لیے مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ جبر کی حقیقت کا ادراک ایک ایسی محدود صورتحال کے طور پر کریں جس کو وہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ پسےہوئے لوگوں کو اپنی نجات کے لیے آزادی کی جدوجہد میں اپنا نمونہ خود ہونا چاہیے ۔ جو ایک وقت میں پسے ہوئے بھی  ہیں اور جابر بھی ہوتے ہیں۔ جب تک مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں پہلے جابر اور بعد میں اپنے ہی شعور کو دریافت کرنے کے قابل نہیں ہوتے وہ کسی بھی صورتحال کے بارے میں ہمیشہ تقریری رویئے کا اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔

پسے ہوئے لوگ خود کو دوسروں سے الگ سمجھتے ہیں کہ جو ہر وقت سست ، بیمار ، رہتے ہیں،یہ سیکھنے کے اہل نہیں ہوتے اور خود کو ہمیشہ دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں اس لیے وہ ہمیشہ زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانی دنیا تاریخی ہوتی ہے اپنے آپ میں وجود کے لیے صرف ایک سہارہ ہوتی ہے ۔ لیکن انسان دنیا کے اندر موجود ہیں جب کہ محتاج جانور اپنی زندگیوں سے باہر عارضی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ دراصل انسان چونکہ حالات میں گھرے ہو تے ہیں وہ نہ صرف اپنے وجود پر تنقیدی غور وفکر کرتے ہیں بلکہ تنقیدی طورپر اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔تنقیدی شعور بیداری کے رویے کو گہرا کرتا ہے جس کی خصوصیت کی وجہ سے سب کچھ ظہور میں آتا ہے ۔

تقدیر پرستی کے روپ میں فرمانبرداری تاریخی اور سماجی صورتحال کا پھل ہے۔ ناگزیر قوتیں یاکچھ بگڑا ہوا نقطہ نظر خیالی قصے اور افسانے ، جادو کے اثر کے تحت ، مظلوم خاص کر کسان جو فطرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اپنے آلام اور استحصال کے پھل کو خدا کی مرضی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو جاہل سمجھتے ہیں  اور اس پر ٹھونساہوا علمی معیار روایتی بن جاتی ہے اور وہ چیزوں کے متعلق کبھی جان نہیں پاتے کہ حالانکہ بہت کچھ جانتے ہیں  جو سماج اور دوسروں انسانوں کے ساتھ رشتے میں سیکھی ہیں۔ وہ اکثر تعلیم دان کے ساتھ معافی مانگتے ہیں پھر خاموش ہو کر خود کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ وہ اکثر اصرار کرتے ہیں کہ ان میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے اور جب وہ اس فرق کو تسلیم کرتے ہیں تو ہر بات جانوروں کی حمایت میں جاتی ہے کیونکہ وہ ‘ہم سے زیادہ آزاد” ہیں۔ ایک جانور کی پیداوار فوری طورپر اس کی جسمانی ضرورت کی وجہ سے ہوتی ہے جب کہ انسان آزادی سے اپنی پیداوار کا سامنا کرتا ہے ۔  انسان حقیقت کے ساتھ ساتھ اپنے مستقل تعلقات کی وجہ سے تحقیقی اور تبدیلی لانے والے اشیاء،  سماجی ادارے، خیالات، اور تصورات پیدا کرتا ہے  اور تاریخ تخلیق کرتا ہے اور تاریخی ، سماجی بنتا ہے ۔ انسان وقت کو تین سمتوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرتے ہیں۔ اپنی تاریخی اور اپنی تخلیقی کے نتیجے میں ایسے تبدیلی پروسسس بناتے ہیں  جن کے اندر دور جدید کی اکھیوں کو مادی بنایا جاسکتا ہے ۔

پاولوفریرے انقلابی جدوجہد کے بارے میں کہتا ہے کہ انقلابی پروسس میں ابھرنے والے قائدین کے لیے صرف ایک ہی رستہ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ سچائی حاصل کر سکتے ہیں یعنی ان قائدین کو دوبارہ جنم لینے اور مظلوموں کے ساتھ ہونے کے لیے مرنا چاہیئے۔ وہ لوگوں کے ساتھ مل کر سوچنا شروع کردیتے ہیں ۔ انقلابی جدوجہد کی خواہشیں ان کے اندر کے ضمیر کو جگہ دیتے ہیں۔

پاولوفرائرے نے جس طریقے سے اپنے خیالات اس کتاب کے زریعے آگے بڑھائے ہیں وہ واقعی قابل دید ہیں۔ معاشرے میں وہ اس کتاب کو دل کی گہرائی کے ساتھ پڑھنا ہر فرد پر فرض ہے بالخصوص جو معاشرتی تبدیلیوں کا خواہاں ہوتے ہیں اور رجعت پسند سمیت مختلف چیلنچز کا سامنا کررہے ہیں آخر میں یہ بات واضح کرتا چلو کہ مظلوموں کی ترقی کے لیے منظم جدجہد کی ضرورت ہے نہ کہ پرانے افسانے، بیکنک تعلیمی نظام ، سرداری نظام دیگر سامراجیت کی تیارہ کردہ سسٹم کی ۔ آج کا سامراج گزرے ہوئے سامراج کی طرح نہیں ہے بلکہ آج آزاد معاشروں میں سرمایہ داروں کا غلبہ ہے اور دوسری جانب نوآبادیات نظام کو منظم نظام ہے۔ اکثر ہر معاشر کے اندر دو طبقات ضرور پائے جاتے ہیں، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ظالم کو فتح دینے کے لیے مظلوم کے پاس دلیل اور اچھے سیاسی کارکردگی کی ضرورت ہونے چاہیے۔اور اسی طرح کے دلیل اور مظوم کی فلسفہ دلیل و منطق کو مصنف نے نمایاں طور پر بیان کیا ہیں. اس کتاب میں پالوفرائری لکھتا ہے “انسانوں کی تعمیر خاموشی سے نہیں ہوسکتی بلکہ لفظ، کام اور فکر میں ہی ہوسکتی ہے۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں