مشرقی بلوچستان کا کوہ سلیمان اور اس کے دامن میں غازی خاں میروانی کا شہر ڈیرہ غازی خان ہے , نوری نصیر کے دور کی دودائی بلوچ ریاست کے دو بڑے شہروں ڈیرہ اسماعیل و ڈیرہ مظفرخان کے درمیان واقع مشرقی بلوچوں کا مرکزی شہر ڈیرہ غازی خان۔ ڈیرہ غازی و اسماعیل کا پرانا نام ڈیرہ جات ہے اس سے قبل اسے کوہستان لکھا بولا اور پکارا گیا ۔ یہاں پر بلوچوں کے کئی بڑے بڑے تمندار قبیلے جن میں بزدار ,نوتکانی ,مزاری ,گورشانی , قیصرانی اور کھوسہ سمیت 15 بڑے بلوچ قبیلے آباد ہیں۔ مگر اس کا ماضی جاننا ہوگا یہ کیسے بلوچ وطن سے ٹوٹا تھا؟ اس کی مزاحمت کیسی تھی؟
ماضی کے پنوں میں لکھا ہے نوری نصیر کا عظیم دور تھا، دودائی بلوچ ریاست کی حدود کاہان سے ملتان شیرشاہ تک پھیلی ہوئیں۔ یہ ریاست چاروں طرف بتدریج جنگ میں ہے، یہاں پر بلوچ لشکروں کی آمد آمد ہے , غازی خان میروانی اپنے لشکر سمیت کبھی سکھوں سے گتھم گتھا ہیں تو کبھی فرنگیوں سے۔ پہاڑوں اور اس کے دامن کے بلوچ قبائل اپنے اپنے لشکر سمیت میروانی بلوچوں کا کمک بن رہے ہیں۔ جنگ کا ماحول ہے , سکھ شکست خوردہ ہوکر پسپا ہورہا ہے ۔ ڈیرہ جات کے میدانوں میں “کائی کائی بلوچ کائی” کے بلوچ لشکری نعرے ہیں۔ وقت سالوں میں بدل رہا ہے غازی خان میروانی سمیت کئی بلوچ مزاحمت کار دنیا سے چل بسے ہیں۔ انیسیویں صدی کا آغاز ہے فرنگی دودائی ریاست وارد ہورہے ہیں۔
بلوچ چھاپہ مار گوریلا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ ڈیرہ کے دامن کے گوریلوں و سیاسی سپوتوں پر غداری کے مقدمے ہیں ان کے سر کی قیمت لگ چکی ہے ۔ قیصرانیوں کے کوڑا خاں قیصرانی کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مار تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ نوتکانی بلوچوں کی طرف سے تحریک عدم تعاون کے قائد اسلم خان ملغانی خودساختہ جلاوطنی میں اغوانستان جاچکے ۔ بزدار بلوچوں کے چیگا بلوچ پہاڑوں کی بغل سے گوریلے حملے کررہے ہیں۔ راجن پور میں مگن قلاتی بلوچ اپنے لشکر کی بغاوت پر قیادت کررہے۔ بلوچ کونے کونے سے لڑرہا ہے کہ یہ وطن میرا ہے یہ گلزمین میری ہے۔
پھر وقت کی رفتار عشروں میں بدلتی ہے۔ انگریز سرداری نظام میں سینڈیمن کی باقیات چھوڑ رہا ہے۔ سینڈیمن کی باقیات یعنی “سردار کا بیٹا سردار” کا کالا قانون لاگو کیا جارہا ہے۔ سردار کا بیٹا سرداری پر تاحیات دھبہ لگانے کو سردار بن گیا فرنگیوں کی اطاعات و مراعات قبول کی جاچکی ہیں، اب بیسیوں صدی کے اوئل ہیں، سینڈیمن کی کوکھ سے جنم زادہ سردار ڈیرہ جات کو بلوچستان سے الگ کرنے پر آمادہ ہیں مسلسل انگریز نواز کٹھ پتلی سرداروں کے دیوان ہورہے ہیں۔۔
سینڈمن کی بھگی کو سردار اپنے کاندھوں سے کھنچ کر ایک دیوان میں لائے ہیں۔
سینڈیمن کرسی پر براجمان ہے اور سردار اس کے پاوں میں بیٹھے
ڈیرہ جات بشمول راجن و جیک آباد کو بلوچ وطن سے توڑرہے ہیں، عوام میں مخالفت ہے، مگر فرنگی نواز سرداران جی حضوری کررہے ہیں۔
11 اگست 1947 کو بلوچستان کی آزادی کا اعلان ہوتا ہے مگر ڈیرہ جات بتدریج غلامی میں ہے ۔ پاکستان کی آزادی و بلوچستان کی غلامی کا اعلان ہوتا ہے۔ عوامی نمائندے ماسوائے کچھ سرداروں کے چیخ کے کہتے ہیں ڈیرہ جات کے قول و فعل بلوچستان سے منسلک ہیں مگر بدقسمتی سے 1956 میں ڈیرہ کو ہمشہ کے لئے اپنی گلزمین سے الگ کردیا گیا ۔مگر نہیں صرف کاغذوں میں ,دِلوں سے نہیں کرسکے , خون سے نہیں کرسکے بس فقط کاغذوں میں توڑا گیا ۔بلوچ جسم سے اسکے دائیں ہاتھ کی جدائی کو کچھ عرصہ بیتا ہے۔
مغرب میں واقع کاہان کا بلوچ شوانخ (شوھان) کوہ سلیمان کی کسی وادی میں اپنا ریوڑ چرارہا ہے، صوبائی سرحد پر تعینات فوجی اسے روک کر بولتے ہیں “رک جاو اپنا ریوڑ پیچھے کرو تمہاری حدود ختم ہوئیں”
اپنے ریوڑ کو آگے کر کے شوھان بولتا ہے “نہیں صاحب, ہمارے نوری نے کہا تھا جہاں تک بلوچی بولی جاتی وہ بلوچ کا وطن ہے” اور ہاں گوادر کی جیوانی سے ڈیرہ کی دریائی حدود تک بلوچ وطن ہے، وہ ان پڑھ شوانخ سچا تھا اور ہے ۔
وقت بدلتا ہے جانے جنرل ایوب کو کیا سوجھی وہ کوہ سلیمان اور ڈیرغازی خان کے پہاڑوں میں پٹواری سسٹم رائج کرنا چاہتا تھا۔
پٹواری بلائے جارہے ہیں کہ پہاڑوں میں پٹواری سسٹم رائج کرو مگر بلوچ جانتا ہے کہ قبائلی نظام کو توڑ جوڑ اس کو اس کے وطن سے لاتعلق کیا جائے گا پھر وہ مزاحمت کرتا ہے وہی مزاحمت جو اسے وراثت میں ملی اور وہ مزاحمت کرتا ہے جس سے پٹواری کچھ فوجیوں سمیت یا تو بھاگ جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔
ایوب خان کو یہ عمل ناپسند ٹھہرا٫ وہ کوہ سلیمان پر فوج طلب کرتا ہے کہ” جاو ان جاہل گوار بلوچوں کو بندوق کی زبان سکھاو”۔ فوج ٹینکوں سے کوہ سلیمان کے دامن میں داخل ہورہی ہے ؛
پہاڑوں میں پہنچتے ہی میرے بلوچ گوریلے اس کا “استقبال” کرتے ہیں ۔۔
کہاں کلونائزر کا ٹینک کہاں دو نلی (لوری) بندوق ۔۔
جھڑپوں کا عمل تیز ہورہا
اسی کاہان کے شوانخ کے دیس سے جنرل شیرو مری ڈیرہ کے بلوچوں کو کمک دینے آ پہنچا ہے۔
آہ گوریلوں میں ایک سفید ریش گوریلا شیروف مری ۔۔1ض
مزاحمت کو مزید تقویت ملی کوہ سلیمان میں ہر کونے سے “ما نیلاں, ما نیلاں ” کی آواز میں بلوچ مزاحمت ابھر رہی ہے
60 سال کیا 6000 سال پہلے کا بلوچ بھی جانتا تھا یہی مزاحمت زندگی ہے۔
بتدریج سولین روز کی جنگ ہے ایوبی فوجی لشکر پسپا ہورہا ہے ۔۔
بلوچ اپنے شہدا کی لاشیں اٹھا رہے ہیں ۔
یہ اب 90 کی دہائی ہے اپنے شہدا کی یاد میں کوہ سلیمان میں ایک دیوان ہو رہا ہے “شہدا ءِ کوہ سلیمان ” یا “ہفت دسمبر موومنٹ ”
دیوان میں ہزاروں بلوچ ثپوت موجود ہیں۔
مستونگ کا سنگت ثناء شہید
خضدار کا ذاکر مجید (بیگواہ)
تربت کا پیر جان سنگت
نیز جھلاون سروان و مکران کوہ سلیمان ایک ہی اسٹیج پر بیٹھے ہیں
ہر کونے کے سیاسی قائدین براجمان ہیں۔
یہ تمام تر بلوچ تمام تر سیاسی جماعتیں ایک اسٹیج پر بیٹھی ہیں ۔۔ بی این پی کے جھنڈے کے ساتھ این پی کا جھنڈا ہے
بی این ایم کا ڈاکٹر حئی تقریر کررہا ہے۔
بلوچوں کے بلوچی و سرائکی میں مزاحمتی گانے گنگائے جارہے ہیں کیونکہ ڈیرہ کا بلوچ بلوچی سرائکی اور جعفرکی زبان بولتا ہے اس لئے دھرتی ماں کی تینوں زبانوں میں اپنے شہیدوں کو یاد کیا جارہا ہے
راجی زبانوں براہوئی و بلوچی میں تقاریر ہورہی ہیں۔
“سنو سنگتک ٫زبانوں کا کوئی فرق نہیں ہے ہمارا خون ایک ہے یہی ہماری نشانی ہے ”
یقیناً یہ وہ واحد نایاب اسٹیج تھا جہاں تمام زبانوں کے بلوچ ایک ساتھ بیٹھے ہیں جہاں تمام بلوچ سیاسی قائدین ایک سٹیج پر ہاتھ ملائے کھڑے ہیں ۔۔
جہاں بلوچوں کی تمام تر زبانوں میں گیت گائے جارہے ہیں
وقت بدل رہا گلیوں کوچوں میں نعرے ہیں
” راجن, جیک ,ڈی جی خان
بلوچستان بلوچستان ”
یہ توار موومنٹ ہے جسے ہفت دسمبر موومنٹ کہا گیا ۔ گلی کوچوں سے ایوانوں تک آواز پہنچائی گئی کہ ڈیرہ بلوچستان ہے۔ اس جہد میں ایک ایک عشرہ گزرتا ہے۔ ایسی کوئی دیوار نہیں جہاں بی ایس او نا لکھا ہو ایسا کوئی گھر نہیں جہاں بی ایس او کا جھنڈا نا ہو ۔۔ ایسا کوئی دن نہیں جب آزات کے ساتھی تونسہ اور ڈیرہ نہ آ رہے ہوں کیسے نا آتے ؟ کیوں نہ آتے؟ یہ ان کا گھر ہے یہ ان کا دوسرا وطن ہے یہ ان کا ٹوٹا بازو ہے ۔ بی ایس او کے ساتھی (بعداز بیگواہ و شہید سنگت) ڈیرہ غازی خان میں موجود ہیں ۔
زبانوں کا فرق نہیں تھا
وطن کی چاہت تھی قوم کا درد تھا ۔۔
ایک بار سنیٹر ثنا جب تونسہ آئے تو کہا کہ
“ڈیرہ غازی خان خاران جیسا ہے یہ تو بلکل مستونگ جیسا ہے
ہاں ڈیرہ مکران جیسا ہے ”
بی ایس او کو اور توار موومنٹ پھر ایک عشرہ بعد ریاستی جبر کا شکار ہوکر ڈیرہ میں کمزور پڑگئے۔ اسٹیج خالی تھیں ۔۔ اتحاد پستی کا شکار ہونے لگا ہی تھا مگر نہیں سنگت ۔۔
مگر ایک نئی صبح !
ایک نیا اجالا لا رہی
پھر وہی شہدائے کوہ سلیمان کے دیوان
تربت کا شہید ساتھی شہداد اسٹیج پر
خصدار کا شہید سنگت آفتاب جتک
شال کی شہزادی ماہ رنگ ڈیرہ غازی خان میں موجود ہے
بانک کریمہ کی شہادت پر ہزاروں بہنوں بھائیوں کی ریلی اور انقلابی نعرے ۔۔۔
کلچر ڈے کا قومی دن شوق و جذبے سے منایا جارہا
پھر وہی بساک کے ساتھی
پھر وہی بلوچ کونسلز کے سنگت
پھر وہی ‘بلوچ راج’ کی جہد
یہی کہہ رہی کہ
بے شک ڈیرہ غازی خان بلوچ تحریکوں کا مرکز ہے ۔۔
اور جہاں تک بلوچی بولی جاتی وہ بلوچ وطن ہے
اور ڈیرہ غازی خان و راجن بلوچستان ہیں ۔۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں