بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ مارواڑ بولان میں زیرحراست جبری لاپتہ افراد کو پاکستانی فوج نے قتل کرکے بربریت کی ایک اور مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح مستونگ میں خاتون ٹیچرز پر حملہ بلوچ روایات کو پراگندہ کرنے کی ریاستی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ قابض ریاست پاکستان ہماری روایات اور رواداری کو ختم کرنے کیلئے مختلف قسم کے حربے آزما رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بولان میں پاکستانی فوج نے پہلے سے جبری لاپتہ علی بیگ ولد ڈاہی، خیرو ولد شاہ میر، مراد ولد نہل خان اور مراد بخش ولد نورخان کو ایک قتل کرکے اسے ایک انکاؤنٹر قرار دیا۔ حقیقت میں تمام چار افراد مختلف اوقات میں پاکستانی فوج نے اُٹھا کر لاپتہ کئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مستونگ میں خاتون ٹیچرز پر حملہ بلوچ روایات پر حملہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ریاستی اداروں نے خاتون ٹیچر، اسکولوں اور طالبات کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کیلئے پنجگور میں فرقان الاسلام کا نام استعمال کیا گیا۔ گوادر میں زاہد آسکانی کو شہید کرکے داعش کا نام استعمال کیا گیا تاکہ وہ تعلیمی نظام کو روک سکیں۔ بلوچ معاشرہ میں خواتین کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ بلوچستان پر پاکستانی قبضہ کے بعد یہ بلوچ نسل کشی کے ساتھ ہماری روایات اور ثقافت کو روند کر ہمارے معاشرے کو مذہبی فرقہ واریت اور عدم برداشت کی جانب لے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ مند میں ایک بچے کو تشدد سے بچانے کی کوشش میں خاتون کی قتل انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور بلوچ روایات کے منافی ہے۔ قاتلوں کی پاکستانی فوج کی کیمپ میں پناہ اس امر کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پاکستان ایسے درندگیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ خواتین کی آزادیوں کوسلب کرکےبلوچ معاشرہ کی روایتی لبرل اورسیکولرتشخص کومٹا دیا جائے۔
ترجمان نے کہا بلوچ قوم نے پہلے بھی پاکستانی بربریت کی تمام اقسام کا مقابلہ کیا ہے اورآئندہ بھی کرے گی، لیکن عالمی برادری اورذمہ دارادداروں کی خاموشی پاکستانی بربریت اورحیوانیت میں اضافے کا واضح سبب رہا ہے۔