لہو کی ایک اور منفرد تاریخ -چیدگ بلوچ

271

لہو کی ایک اور منفرد تاریخ
چیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے پنوں کو اگر ٹٹولا جائے تو یہ بات طے ہے کہ جب جب سماج میں باطل نے سر اٹھایا ہے اپنی ظلم کی داستان رقم کرنا چاہا ہے اور طاقت کے بل بوتے پر خود کو منوانا چاہا ہے تو اس سماج میں پر جوش و جذبے کیساتھ انقلابیوں نے جنم لیا ہے اور سامراجی طاقتوں کو ڈھیر کرنے کیلئے اپنی پوری توانائی لگائی ہے اس جنگ میں یا تو وہ فتح یاب ہوئے ہیں یا مات کھا گئے لیکن ظلم کے آگے سر جھکانا کبھی گوارا نہیں کیا۔

اس کی ایک بہترین مثال بلوچ اور انگریز سامراج کے جنگی تاریخ میں “خان میر محراب خان” کی ہے کہ جب خان کے درباریوں میں سے کسی نے ان کو بزدلانہ مشورہ دیا کہ انگریز سامراج سے جنگ لڑنا انتہائی مشکل ہے اور ہماری قوت ان کے مقابلے میں بہت کمزور ہے سردار آپ یوں کیجئے کہ انگریز سامراج کی بات تسلیم کریں اور وقتی طور پر پسپائی اختیار کریں۔

تو اس کے جواب میں محراب خان نے کیا خوب کہا: “میں جانتا ہوں انگریز لندن اور پورے ہندوستان کے بادشاہ ہیں اب کابل اور کندھار پر بھی ان کی حکومت ہے، ان کی جو قوت ہے میں اس سے پوری طرح واقف ہوں اور ان سے مقابلہ بھی بے حد مشکل ہے لیکن میں اپنے سرزمین کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ میرے آباؤ اجداد نے اپنا لہو بہا کر اس سرزمین کو حاصل کیا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ بنا کسی ریا کے خالص اللہ کیلئے میں اپنا سر دے رہا ہوں۔ آئندہ جو ہوگا سو ہوگا۔ خدا کا شکر ہے کہ پوری زندگی میں کسی غیر کے آگے سر نہیں جھکایا، اپنی قوت پر حکمران رہا۔ کسی کی اطاعت نہیں کی۔ آج اپنا سر کیوں نہ قربان کروں۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ضرور اس گناہ گار کو جامِ شہادت نصیب کرے گا”۔

جب سے بنی نوع انسان کی اس دنیا میں وجود میں آئی ہے شروع دن سے لیکر اب تک ظلم، نا انصافی اور قتل و غارت کی بے شمار داستانیں ہیں لیکن اگر انہی نا انصافیوں کے ردعمل میں انقلابیوں کی داستان کو دیکھا اور پرکھا جائے تو وہ سب سے منفرد اور نمایاں ہیں جہاں انہوں نے طرح طرح کی مصائب و تکالیف کو سہتے ہوئے بے مثال کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔

ان بے شمار انقلابیوں میں سے بلوچ وطن کے سرفروشوں کی داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جہاں انہوں نے انتہائی زبردست بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قابض دشمن کو اس کی اصل اوقات دکھا دی ہے کہ وہ اپنے گھناؤنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے انہیں اپنے ہر ایک کئے ظلم کو بھگتنا ہوگا۔ قابض چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو انہیں انقلابی جذبے سے سرشار بلوچ نوجوانوں کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔ جب ان کا سامنا ایسے بہادر اور باشعور نوجوانوں سے ہوتا ہے تو ان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے اس وقت ان کی طاقت ان کے بلکل کام نہیں آتی اور شکست ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

ایسے بہادر بلوچ وطن کے سپاہیوں میں بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کے فدائین کی بہادری، شجاعت، کردار اور قربانی ایک منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں قابض پاکستان کیساتھ جب سے چائنہ نے برابری کی شرکت کی ہے تب سے بلوچ مزاحمت میں خاصے تیزی آئی ہے جہاں چھوٹے حملوں سمیت بلوچ نوجوانوں کے فدائی حملوں نے دونوں دشمن قوتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ حالیہ بلوچ مزاحمتی لہر خصوصاً فدائی حملوں نے قبضہ گیر دشمن کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ بھوکلاہٹ کی انتہا کو پہنچ چکا ہے اب وہ بنگلہ دیش میں کئے اپنی ظلم کی بدترین تاریخ کو بلوچ سرزمین پر دہرا رہا ہے۔

حالیہ بلوچ مزاحمت میں فدائی حملوں نے ایک الگ اور منفرد تاریخ رقم کی ہے۔ شعور و قربانی کے جذبے سے سرشار ریحان جان سمیت تمام فدائینِ وطن نے اپنی تمام تر خواہشات قربان کرکے صرف اور صرف وطن کی آبرو و قومی بقاء کیلئے بخوشی اپنی جانیں دیں۔ دالبندین، کراچی قونصلیٹ، گوادر فائیو اسٹار پرل کانٹینینٹل ہوٹل اور کراچی اسٹاک ایکسچینج پر فدائی حملوں نے دشمن کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ انہیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ بلوچ نوجوان اس حد تک جا سکتے ہیں اور ان کی کمزور رگ پر ہاتھ رکھ سکتے ہیں۔ انہیں اس لئے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی طاقت کے نشے میں چور تھے۔

ایک سال قبل آج ہی کے دن یعنی انتیس جون دو ہزار بیس کو چار بلوچ نوجوان مسلح ہوکر اپنی وطن کی دفاع میں دشمن پر کاری ضرب لگانے اور خود کو اس خوبصورت راہ میں قربان کرنے کیلئے نکل پڑتے ہیں اور آخر کار اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور دشمن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ دشمن بھوکلاہٹ کا شکار اس حملے کو اپنے میڈیا میں بڑھ چڑھ ناکام حملہ ظاہر کرتا ہے مگر یہ حملہ اور حملے کے مقاصد واضح کرتے ہیں کہ یہ مکمل کامیاب حملہ ہے جس سے ایک سال گزرنے کے باوجود آج تک دشمن اس طاق میں بھٹک رہا ہے انہیں کیسے روکا جائے یا ان کا کیسے خاتمہ کیا جائے۔

آج فدائی سلمان حمل، فدائی تسلیم، فدائی شہزاد اور فدائی سراج کنگر نے خود کو دھرتی کی دفاع، قوم اور انسانیت کی بقاء کیلئے قربان کیا ہے ان کی قربانیاں آج بھی دشمن کو ستائے ہوئے ہیں انہیں آج یہ محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ فدائین ان کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ دشمن پر ہر ایک فدائی حملے کی الگ ایک تاریخ ہے اور آج اسٹاک ایکسچینج پر چاروں فدائیوں کی لہو نے منفرد تاریخ رقم کی ہے۔ دشمن کو روز بہ روز اس جنگ میں منہ کی کھانی پڑ رہی ہے بلوچ آزادی کی تحریک اپنے منزل کی جانب شعوری طور پر پُرجوش انداز میں رواں دواں ہے اب ان نوجوانوں کو روکنا دشمن کیلئے مشکل نہیں ناممکن ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں